سمرہ بن جندب

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سمرہ بن جندب
 

معلومات شخصیت
مقام وفات بصرہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
نمایاں شاگرد عبد اللہ بن زيد جرمی بصری   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ محدث   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سمرہ بن جندب صحابی رسول اور بعد میں بصرہ کے گورنر بنے۔

نام ونسب[ترمیم]

سَمُرَہ نام، ابو عبد الرحمان کنیت، سلسلۂ نسب یہ ہے سمرہ بن جندب بن ہلال بن حریج بن مراہ بن حزن بن عمرو بن جابر بن ذوالریاستین خشین بن لای بن عاصم (عصیم) ابن شمخ بن فزارہ بن ذبیان بن بغیض بن ریث بن غطفان۔

بچپن[ترمیم]

سمرہ کے باپ ان کی صغر سنی میں فوت ہوئے، ماں ان کو لے کر مدینہ آئیں اور انصار میں نکاح کا پیام دیا، لیکن شرط یہ پیش کی کہ شوہر پر میری اور سمرہ دونوں کی کفالت ضروری ہوگی مری بن شیبا بن ثعلبہ نے اس کو منظور کیا اور عقد ہو گیا، سمرہ نے انہی کے ظلِ عاطفت میں تربیت پائی۔

اسلام[ترمیم]

ہجرت کے بعد مسلمان ہوئے۔

غزوات[ترمیم]

کم سنی کی وجہ سے بدر میں شرکت نہ کی، احد میں انصار کے لڑکے معائنہ کی غرض سے آنحضرتﷺ کے سامنے پیش ہوئے، تو آنحضرتﷺ نے ایک لڑکے کو جنگ کے قابل سمجھ کر میدان میں جانے کے اجازت دیدی اور سمرہ کو واپس کر دیا، سمرہ نے کہا آپ ان کو اجازت دیتے ہیں حالانکہ میں ان سے طاقتور ہوں، اوریقین نہ ہو تو کشتی لڑاکر دیکھ لیجئے، آنحضرتﷺ نے کشتی کا حکم دیا جس میں سمرہ نے اپنے مقابل کو اٹھا کر دے پٹکا آپ نے یہ دیکھ کر ان کو بھی میدان جنگ میں جانے کی اجازت دے دی۔ احد کے بعد تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ عہد نبوی مدینہ میں بسر کیا، بعد میں بصرہ کی سکونت اخیتار کی 50ھ میں جب مغیرہ بن شعبہ والی کوفہ کا انتقال ہو گیا، اورزیاد بن سمیہ بصرہ کے ساتھ کوفہ کا بھی والی ہو گیا تو اس نے سمرہ کواپنا نائب مقرر کیا وہ بصرہ اورکوفہ میں 6،6 ماہ رہتا تھا سمرہ بھی دونوں جگہ قیام فرماتے وہ بصرہ آتا تو یہ کوفہ اور وہ کوفہ پہنچتا تو یہ بصرہ چلے جاتے تھے۔ سمرہ کے پاس جو خارجی آتا قتل کراتے اورکہتے کہ آسمان کے نیچے یہ سب سے بد تر مقتول ہیں کیونکہ مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں اور خونریزی کرتے ہیں۔

بصرہ کے والی[ترمیم]

سمرہ بصرہ کے والی مقرر ہوئے جو کم و بیش ایک سال تک اس منصب پر رہے اور 54ھ میں امیر معاویہ کے حکم سے معزول ہوئے۔

وفات[ترمیم]

سمرہ نے 54ھ میں انتقال کیا۔[1][2] جسم میں سردی سماگئی تھی، علاج کے لیے گرم پانی کی دیگ پر عرصہ تک بیٹھے رہے، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا، آخر اس نے مرض الموت کی صورت اختیار کرلی ایک روز شدت سے سردی محسوس ہوئی، آتش دانوں میں آگ جلوا کر چاروں طرف رکھوائی؛ لیکن کچھ افاقہ نہ ہوا، فرمایا کیا بتلاؤں کہ پیٹ کی کیا حالت ہے، غرض اس بے چینی میں دیگ پر بیٹھے اور کھولتے پانی میں گر کر انتقال فرما گئے، آنحضرتﷺ نے حضرت ابو ہریرہ، ابو محذورہؓ اور سمرہؓ سے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ تم تینوں میں سب کے بعد مرنے والا آگ میں جل کر مرے گا؛چنانچہ حضرت سمرہؓ کی وفات سے اس پیشنگوئی کی تصدیق ہو گئی۔

اولاد[ترمیم]

اولاد کی صحیح تعداد معلوم نہیں دو لڑکوں کے نام یہ ہیں، سلیمان، سعد۔ ایک بیٹی ناریہ تھی جو مختار ثقفی کی زوجہ بنی۔

فضل وکمال[ترمیم]

حضرت سمرہؓ فضلائے صحابہؓ میں تھے اور باوجود یکہ عہد نبوت میں صغیر السن تھے، سینکڑوں حدیثیں یاد تھیں، استیعاب میں ہے۔ کان من الحفاظا المکثر ین عن رسول اللہ ﷺ وہ حدیث کے حافظ اورآنحضرتﷺ سے کثیر روایت کرتے تھے۔ تہذیب التہذیب میں ہے کہ ان کی احادیث کا ایک بڑا نسخہ ان کے بیٹے کے پاس تھا۔ [3] سیرین کہتے ہیں کہ یہ رسالہ علم کے بہت بڑے حصہ پر مشتمل تھا۔ [4] حضرت سمرہؓ کو احادیث یاد رکھنے میں خاص اہتمام تھا، حافظہ غیر معمولی تھا جس بات کا ارادہ کرتے یاد ہوجاتی تھی، آنحضرتﷺ نماز میں دو جگہ ٹھہرا کرتے تھے، ایک تکبیر کے بعد جب سبحانک اللہم پڑہتے، دوسرے "ولاالضالین" کے بعد جب آمین کہتے یہ حضرت سمرہؓ کو یاد تھا اوروہ اس پر عامل بھی تھے، حضرت عمران ؓ بن حصین جو ان سے معمر تھے بھول گئے تھے، سمرہؓ نے نماز میں اس پر عمل کیا تو معترض ہوئے حضرت ابی بنؓ کعب کو مدینہ خط لکھا گیا انھوں نے جواب دیا سمرہ کو ٹھیک یاد ہے۔ [5] اسی طرح خطبہ میں ایک حدیث روایت کی، ثعلبہ بن عباد عبدی موجود تھے، کہتے ہیں کہ جب دوبارہ بیان کی تو الفاظ میں کہیں بھی تفاوت نہ تھا (ایضا) بایں ہمہ قوت حفظ روایت حدیث میں محتاط تھے، مسند احمد میں ہے: إِنَّهُ لَيَمْنَعُنِي أَنْ أَتَكَلَّمَ بِكَثِيرٍ مِمَّا كُنْتُ أَسْمَعُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ هَاهُنَا مَنْ هُوَ أَكْثَرُ مِنِّي وَكُنْتُ لَيْلَتَئِذٍ غُلَامًا وَإِنِّي كُنْتُ لَأَحْفَظُ مَا أَسْمَعُ مِنْهُ [6] میں نے آنحضرتﷺ سے بہت کچھ سنا ہے؛ لیکن اس کو بیان کرنے میں اکابر صحابہ کا ادب مانع ہوتا ہے یہ لوگ مجھ سے عمر میں بڑے ہیں، میں آنحضرتﷺ کے زمانہ میں لڑکا تھا تاہم جو کچھ سنتا تھا یاد رکھتا تھا۔ کبھی کبھی احادیث روایت کرتے اورکسی کو کوئی شبہ ہوتا تو اس کا جواب دیتے تھے، ایک شخص نے آنحضرتﷺ کے ایک معجزہ کو سنا اورپوچھا کہ کیا کھانا زیادہ ہو گیا تھا؟ بولے تعجب کی کیا بات ہے؟ لیکن وہاں (آسمان) کے سوا اورکہیں سے نہیں بڑھا تھا۔ [7] حضرت سمرہؓ نے آنحضرتﷺ اورحضرت ابو عبیدہؓ بن جراح سے روایتیں کی ہیں، کتابوں میں ان کی سند سے کل (123) حدیثیں مندرج ہیں، راویوں کے نام حسب ذیل ہیں: حضرت عمرانؓ بن حسین، شعبی، ابن ابی لیلیٰ، علی بن ربیعہ، عبد اللہ بن بریدہ، حسن بصری، ابن سیرین، مطرف بن شخیر، ابو العلا، ابورجاء، قدامہ بن دبرہ، زید بن عقبہ، ربیع بن عمیلہ، ہلال بن لیاف ابو نضرۃ العبدی، ثعلبہ بن عباد۔

اخلاق[ترمیم]

حضرت سمرہؓ میں بہت سی اخلاقی خوبیاں تھیں، وہ نہایت امانت دار، راست گو اوربھی خواہِ اسلام تھے۔ [8] پچھنا لگانا آنحضرتﷺ کی سنت ہے اس پر عملدرآمد کرتے تھے۔ [9] عرب میں احنف نامی ایک شخص نے ایک خاص قسم کی تلوار تھی، سمرہؓ نے اس کی نقل بنوائی ان کے شاگردوں میں ابن سیرین نے بھی اس کی نقل لی تھی۔ آنحضرتﷺ نماز میں جیسا کہ آپ نے اوپر پڑھا، دو جگہ سکوت کرتے تھے، حضرت سمرہؓ کا بھی اس پر عمل تھا۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. اسدالغابہ:2/354
  2. استیعاب:2/579
  3. (تہذیب :4/198)
  4. (اسدالغابہ:2/354)
  5. (مسند:5/ )
  6. (مسند احمد، باب ومن حدیث سمرۃ بن جندب عن النبی، حدیث نمبر:19347)
  7. (مسند:18)
  8. (استیعاب:2/579)
  9. (مسند:5/18)