ابو جہم بن حزیفہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حضرت ابو جہم بن حذیفہ ؓ
معلومات شخصیت

حضرت ابو جہم بن حذیفہ صحابی رسول تھے۔فتح مکہ کے زمانہ میں مشرف باسلام ہوئے۔

نام ونسب[ترمیم]

عامر یا عبید نام، ابو جہم کنیت، نسب نامہ یہ ہے، ابو جہم بن حذیفہ بن غانم بن عامر ابن عبد اللہ بن عبید بن عویج بن عدی بن کعب قرشی عدوی، ماں کا نام بسیرہ تھا نانہالی شجرہ یہ ہے،بسیرہ بنت عبد اللہ بن اواہ بن ریاح بن عبد اللہ بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب ابو جہم قریش کے نہایت معمر اورباثر لوگوں میں تھے،قریش میں ان کی بڑی عزت ووقعت تھی۔

اسلام[ترمیم]

فتح مکہ کے زمانہ میں مشرف باسلام ہوئے۔ [1]

رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ہدیہ[ترمیم]

آنحضرتﷺ کے ساتھ خاص روابط تھے ایک مرتبہ ابو جہم نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں ایک بوٹے دار قمیص ہدیہ کی آپ نے اسے پہن کر نماز پڑھی، بوٹوں کی وجہ سے آپ خیال بٹ گیا، اس لیے نماز پڑہنے کے بعد واپس کردی۔

امارتِ صدقہ[ترمیم]

ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو صدقہ وصول کرنے پر مامور فرمایا ایک آدمی نے صدقہ دینے میں جھگڑا کیا،ابوجہم نے اسے مارا،اتفاق سے وہ زخمی ہو گیا،اس کے قبیلہ والوں نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ ہم کو اس کا معاوضہ ملنا چاہیے آپ نے فرمایا،اتنی اتنی رقم لے لو،وہ راضی نہ ہوئے،آپ نے دوسری مرتبہ پھر فرمایا،پھر وہ لوگ رضا مند نہ ہوئے،آپ نے تیسری مرتبہ ارشاد فرمایا،اس مرتبہ راضی ہو گئے آنحضرتﷺ نے فرمایا،آج رات کو میں لوگوں کے سامنے تقریر کرکے تمھاری رضا مندی کی اطلاع دونگا،انھوں نے کہا مناسب ہے؛چنانچہ شب کو اُن کی موجود گی میں صحابہ کے سامنے تقریر کی یہ لیثی زخمی کرنے کا معاوضہ مانگنے کے لیے آئے تھے،میں نے ان کے سامنے اتنی اتنی رقم پیش کی،یہ لوگ راضی ہو گئے،یہ ارشاد فرما کر لیثیوں سے خطاب فرمایا کہ تم لوگ راضی ہو اس وقت یہ لوگ انکار کرگئے،ان کے انکار پر مہاجرین نے انھیں مارنے کا ارادہ کیا،لیکن آنحضرتﷺ نے روک دیا، اس کے بعد رقم میں اورزیادہ اضافہ کرکے فرمایا، اب راضی ہو، انھوں نے کہا ہاں، آپ نے فرمایا میں لوگوں کے سامنے تقریر کرکے تمھاری رضا مندی کی اطلاع دونگا، انھوں نے اجازت دی؛چنانچہ آنحضرتﷺ نے تقریر کرکے لوگوں کے سامنے ان کی رضا مندی کی تصدیق کرادی۔ [2]

تدفین عثمان غنیؓ[ترمیم]

حضرت عثمانؓ کی شہادت کے وقت مدینہ میں نہایت سخت فتنہ برپا ہوا،مدینہ باغیوں کے قبضہ میں تھا اوران کے خوف سے کسی کو خلیفۂ مظلوم کی لاش دفن کرنے کی ہمت نہ پڑتی تھی،دوسرے دن جن چند سرفروش مسلمانوں نے ہتھیلیوں پر سر رکھ کر بے گور و کفن لاش کو دفن کیا تھا ان میں ایک ابو جہم بھی تھے۔ [3]

وفات[ترمیم]

ابو جہم نے کافی عمر پائی ان کی طوالت عمر کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ انھوں نے کعبہ کی تعمیریں دیکھیں، ایک زمانہ جاہلیت میں رسول اللہ ﷺ کے بچپن میں قریش کی تعمیر،دوسری ابن زبیرؓ کے زمانہ خلافت میں ان کی تعمیر،ان دونوں زمانوں میں کم وبیش ایک صدی کا فصل تھا، اس طویل عمر کے بعد عبد الملک کے عہد حکومت میں وفات پائی، [4] بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ امیر معاویہ کے زمانہ میں وفات پاچکے تھے لیکن پہلی روایت زیادہ مستند ہے۔

فضل وکمال[ترمیم]

ابو جہم کا مذہبی علوم میں کوئی پایہ نہ تھا،لیکن نسابی میں جو جاہلیت کا نہایت ممتاز علم تھا، بڑا کمال رکھتے تھے اوران چار علمائے نسب میں سے ایک تھے،جو اس عہد میں سارے عرب میں استاد مانے جاتے تھے۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (اسد الغابہ:5/162)
  2. (ابوداؤد :2،کتاب الدیات باب العامل یصاب علی یدیہ خطار)
  3. (اصابہ:7/34)
  4. (استیعاب:2/650)