ابو عمرو بن حفص
حضرت ابو عمروؓبن حفص | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
درستی - ترمیم |
حضرت ابو عمروؓبن حفص صحابی رسول تھے۔
نام ونسب
[ترمیم]عبد الحمید نام، ابو عمر کنیت ،نسب نامہ یہ ہے، ابو عمرو بن حفص بن عمرو بن مغیرہ بن عبد اللہ بن عمرو بن مخزوم،قرشی مخزومی
اسلام وغزوات
[ترمیم]فتح مکہ کے بعد مشرف باسلام ہوئے ،10ھ میں آنحضرتﷺ نے ان کو حضرت علیؓ کے ساتھ ایک سریہ میں یمن بھیجا۔ [1]
عہد فاروقی
[ترمیم]ابو عمرو نہایت جری اور بے باک تھے،جو بات حق سمجھتے تھے،اس کے اظہار میں بڑی سے بڑی شخصیت کی پروانہ کرتے اور برملا اس کو ظاہر کرتے تھے،حضرت خالد ؓ بن ولید کی معزولی کے معاملہ میں وہ حضرت عمرؓ کی رائے کو صحیح نہیں سمجھتے تھے؛چنانچہ نہایت سختی کے ساتھ اس کو ان کے سامنے ظاہر کیا اور کہا عمر! کوئی عذر قابل قبول نہیں ہو سکتا تم نے ایسے عامل کو معزول کیا ہے،جسے رسول اللہ ﷺ نے مقرر کیا تھا، تم نے ایسی تلوار نیام میں کی جس کو خدانے بے نیام کیا تھا، تم نے ایسا علم سرنگوں کیا جس کو آنحضرتﷺنے بلند کیا تھا، تم نے قطع رحم کیا، تم کو اپنے ابن عم (خالد) پر رشک تھا، حضرت عمرؓ نے ان کی اس پر جوش تقریر کا نہایت مکمل اور شافی جواب دیا۔ [2]
وفات
[ترمیم]ان کے زمانہ وفات میں اختلاف ہے، بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حیات ِ نبویﷺ ہی میں جب آ پ نے حضرت علیؓ کے ساتھ ان کو یمن بھیجا تھا، وفات پاگئے اوربعض سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد فاروقی تک زندہ تھے اور شام کی فتوحات میں شریک تھے ،دوسری روایت زیادہ صحیح ہے اوپر کے واقعہ سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔
فضل وکمال
[ترمیم]فضل وکمال میں کوئی قابل ذکر شخصیت نہ تھی، تاہم حدیث کی کتابوں میں ان کی روایتیں موجود ہیں،ناشرہ بن سہمی نے ان سے روایت کی ہے۔ [3]