سواد بن قارب

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حضرت سواد ؓبن قارب
معلومات شخصیت

نام ونسب[ترمیم]

سواد نام،باپ کا نام قارب تھا،یمن کے مشہور قبیلہ دوس سے نسبی تعلق تھا،زمانہ جاہلیت میں کہانت کا پیشہ کرتے تھے۔

اسلام[ترمیم]

ہجرت مدینہ کے زمانہ میں خواب میں ظہور نبوی کی بشارت ملی ،رویائے صادقہ دل میں اثر کر گیا، فورا وطن سے مکہ روانہ ہو گئے،راستہ میں خبرملی جس گو ہر مقصود کی تلاش میں نکلے ہیں وہ مدینہ جاچکا، یعنی آنحضرتﷺ ہجرت فرماچکے ،یہ خبر سن کر راستہ ہی سے مدینہ لوٹ پڑے، وہاں پہنچکر آنحضرتﷺ کو پوچھا،معلوم ہوا مسجد میں تشریف فرما ہیں، اونٹ بٹھا کر مسجد پہنچے، آنحضرتﷺ کے گرد صحابہ کا مجمع تھا عرض کیا یا رسول اللہ کچھ میری داستان بھی سنی جائے، حضرت ابوبکرؓ نے کہا قریب آکر بیان کرو، چنانچہ پاس جاکر انھوں نے پوری سرگزشت سنائی اوراسی وقت خلعتِ اسلام سے سرفراز ہو گئے،ان کے اسلام سے آنحضرتﷺ اورصحابہ کرام کو اتنی مسرت ہوئی کہ ان کے چہروں پر خوشی کا رنگ دوڑ گیا اس غیر معمولی مسرت کا سبب یہ تھا کہ عربوں میں کاہنوں کی بڑی وقعت تھی اورانہیں ایک طرح کی مذہبی سیادت حاصل تھے، اس لیے عوام پر ان کے اسلام کا اثر بہت اچھا پڑتا تھا۔ حضرت عمرؓ ان کاخواب ذوق و شوق سے سنا کرتے تھے، ایک مرتبہ یہ حضرت عمرؓ کے پاس گئے، آپ نے پوچھا اب بھی تم کو کہانت میں کچھ دخل ہے، چونکہ اسلام کہانت کا مخالف تھا اور سواد کے زنگِ کہانت کو اسلام کے صیقل نے بالکل صاف کر دیا تھا، اس لیے اس سوال سے قدرۃ سواد کو تکلیف ہوئی،برہم ہوکر جواب دیا، سبحان اللہ ! خدا کی قسم اس وقت جس طرح آپ نے میرا استقبال کیا ویسا میرے کسی ساتھی نے نہ کیا تھا، حضرت عمرؓ نے اس برہمی پر فرمایا سبحان اللہ ! جس کفر وشرک میں ہم مبتلا تھے وہ تمھارے کہانت سے کہیں بڑھ کر تھا( یعنی ہماری اسلام کے قبل کی حالت تم سے بھی بد تر تھی، اس لیے تم کو اس سوال پر بگڑنا نہ چاہیے) میں نے تمھارا واقعہ سناہے ،وہ مجھ کو بہت عجیب وغریب معلوم ہوا، اس لیے میں اس کو خود تمھاری زبان سے سننا چاہتا ہوں، حضرت عمرؓ کی خواہش پر انھوں نے پورا واقعہ سنایا۔ [1]

وفات[ترمیم]

وفات کے بارے میں ارباب سیر خاموش ہیں۔

حلیہ[ترمیم]

صورۃ نہایت حسین و جمیل تھے۔

فضل وکمال[ترمیم]

مذہبی حیثیت سے ان کا کوئی پایہ نہ تھا لیکن زمانہ جاہلیت میں بہت ممتاز حیثیت رکھتے تھے،کہانت میں جو زمانہ جاہلیت کا بڑا معزز علم تھا، یدِ طولیٰ رکھتے تھے، شاعر بھی تھے؛چنانچہ حضرت عمرؓ کو خواب کی داستان نظم ہی میں سنائی تھی۔ [2]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (اسد الغابہ:2/375)
  2. (حاکم نے مستدرک میں یہ اشعار نقل کیے ہیں)