عمرو بن امیہ
عمرو بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ(وفات: 60ھ) صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوۂ احد کے بعد مشرف باسلام ہوئے ۔غزوہ احد کے بعد تمام غزوات میں شریک ہوئے ، 6ھ میں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط مبارک نجاشی بادشاہ کے پاس لے کر گے۔60ھ میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد حکومت میں وفات پائی ۔
عمرو بن امیہ | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
مدفن | مدینہ |
کنیت | ابو امیہ |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | بیر معونہ، |
درستی - ترمیم |
نام و نسب
[ترمیم]عمرونام، ابوامیہ کنیت،سلسلۂ نسب یہ ہے، عمرو بن امیہ بن خویلد بن عبد اللہ ابن ایاس بن عبید بن ناثرہ بن کعب بن جدی بن حمزہ بن عبدمناۃ بن کنانہ کنانی۔ [1]
اسلام
[ترمیم]غزوہ بدر اور غزوہ احد کی لڑائیوں میں مشرکین کے ساتھ تھے اور مسلمانوں کے خلاف نہایت شجاعت اور پامردی سے لڑے؛لیکن غزوہ بدر اور غزوہ احد کے معرکوں میں جو شخص مسلمانوں کے خون سے پیاس بجھانے آیا تھا، وہ غزوہ احد کے بعد اسلام کے سر چشمہ ایمان سے سیراب ہو گیا۔ [2]
بیرمعونہ
[ترمیم]اسلام لانے کے بعد سب سے پہلے بیر معونہ میں شریک ہوئے، اس کا واقعہ یہ ہے کہ 4ھ میں ابوبراء قبیلہ کلاب کے رئیس نے آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر درخواست کی کہ آپ کچھ مسلمان ہمارے قبیلہ میں دعوت اسلام کے لیے بھیجیں، آپ ﷺ نے فرمایا مجھ کو نجد والوں کی طرف سے خطرہ ہے؛لیکن اس کی ضمانت کے بعد ستر آدمیوں کی جماعت منذر بن عمرو کی ماتحتی میں بھیج دی،ان لوگوں نے بیر معونہ پہنچ کر قیام کیا اور حرام بن ملحان کے ہاتھ آنحضرت ﷺ کا دعوت نامہ عامر بن طفیل کے پاس بھجوادیا، اس نے ان کو قتل کر دیا اور عصیہ، رعل اور ذکوان وغیرہ کے قبائل میں منادی کرادی، یہ سب جمع ہو گئے،یہاں جب حرام کی واپسی میں دیر ہوئی تو مسلمان ان کی تلاش میں نکلے؛لیکن آگے بڑھ کر رعل و ذکوان وغیرہ کا سامنا ہو گیا ان سب نے مل کر مسلمانوں پر حملہ کرکے ان کی پوری جماعت تہ تیغ کردی،صرف حضرت عمرو بن امیہؓ کو عامر بن طفیل نے یہ کہہ کر کہ میری ماں نے ایک غلام آزاد کرنے کی نذرمانی تھی، اس کو چھوڑ دیا اور نشان ذلت کے طور پر پیشانی کے بال تراش لیے،یہ واپس ہو رہے تھے کہ راستہ میں دو کلابی شخص ملے، ان دونوں کو آنحضرت ﷺ نے امان دیدی تھی؛ لیکن عمروؓ کو معلوم نہ تھا، اس لیے دونوں کو قصاص میں قتل کر دیا، آنحضرت ﷺ کو خبر ہوئی تو آپ کو بہت صدمہ ہوا اور دونوں کی دیت اداکی۔ [3]
حضرت عمروؓ کی سفارت اور نجاشی کا اسلام
[ترمیم]6ھ میں آنحضرت ﷺ نے ان کو نجاشی کے پاس دعوت اسلام کا خط لے جانے پر مامور کیا، اس خط میں دعوت اسلام کے علاوہ مہاجرین کی میزبانی کی سفارش اور حضرت ام حبیبہؓ جو اس وقت مہاجرین حبش کے ساتھ حبشہ میں موجود تھیں کے ساتھ نکاح کا پیام بھی تھا، اس دعوت نامہ کے اثر سے نجاشی حضرت جعفر کے ہاتھ پر مشرف باسلام ہوا اور آنحضرتٓ ﷺ کے نامہ مبارک کے جواب میں ایک عریضہ لکھا،جس میں اسلام کا اقرار ، قدم بوسی کی تمنا اور مہاجرین کی میزبانی وغیرہ کا ذکر تھا، اس کے بعد نجاشی نے حضرت ام حبیبہؓ کو آنحضرت ﷺ کی طرف سے نکاح کا پیام دیا اور خود آنحضرت ﷺ کی طرف سے وکیل بنایا اور نکاح کے بعد آپ کی طرف سے چار سو دینار مہر معجل ادا کیا۔ [4]
ایک سریہ
[ترمیم]اس سفارت کے بعد ابوسفیان کی ایک شرارت کا بدلہ لینے کی خدمت سپرد ہوئی،اس کا واقعہ یہ ہے کہ ابو سفیان بن حرب قریش کے کچھ لوگوں کو آنحضرت ﷺ کے قتل پر آمادہ کررہا تھا، ایک اعرابی نے اس کا بیڑا اٹھایا اور ابوسفیان نے ضروری سامان مہیا کر دیا، وہ مدینہ پہنچا، آنحضرت ﷺ مسجد میں تشریف رکھتے تھے یہ بھی وہیں پہنچا؛لیکن آنحضرت ﷺ اس کی نیت تاڑ گئے، فرمایا کہ یہ کوئی فریب کرنا چاہتا ہے،اعرابی حملہ کرنے ہی والا تھا کہ حضرت اسید بن حضیرؓ نے جھپٹ کر دبوچ لیا، اعرابی کے ازار سے خنجر گرا، جرم کھلا ہوا تھا، کسی شاہد کی ضرورت نہ تھی، لیکن رحمۃ للعالمین نے معاف کر دیا، اس نے پورا پورا واقعہ سنایا؛ چونکہ اس جرم کا اصل بانی ابو سفیان تھا اور اس کی بدولت اہل مدینہ اور قریش کی دائمی جنگ کی سی حالت قائم تھی، اس لیے آنحضرت ﷺ نے عمرو بن امیہ اور سلمہ بن اسلم کو اس غرض سے بھیجا کہ اگر موقع ملے تو اس فتنہ کے بانی کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا جائے، یہ دونوں بزرگ مکہ پہنچے؛لیکن معاویہ نے خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے ان کو دیکھ لیا اور قریش کو خبر کردی،ان لوگوں نے کہا، ان کا آنا بے سبب نہیں ہے اور یہ کوئی نہ کوئی حرکت ضرور کریں گے ،ان لوگوں نے جب دیکھا کہ راز فاش ہو گیا تو مکہ سے نکل گئے ،راستہ میں عبیداللہ بن مالک اور بنو ہذیل کا ایک آدمی ملا، عمروؓ نے عبیداللہ کا اور سلمہ نے دوسرے شخص کا کام تمام کر دیا، اس کے بعد قریش کے دو جاسوس ملے جو انھیں کی تلاش میں پھر رہے تھے، ان دونوں بزرگوں نے ان میں سے بھی ایک کو قتل کر دیا اور ایک کو پکڑ کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں لائے۔ [5]
وفات
[ترمیم]حضرت عمرو بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ امیر معاویہؓ کے آخری عہدامارت 60ھ کے قبل مدینہ میں وفات پائی۔ [6]
اولاد
[ترمیم]جعفر،عبد اللہ اورفضل تین لڑکے یادگارتھے۔ [7]
فضل و کمال
[ترمیم]فضل وکمال میں گو کوئی ممتاز حیثیت نہ تھی، تاہم ان کی 20 روایات حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں، تلامذہ میں ذیل کے نام ہیں،عبد اللہ، جعفر فضل ، زبرقان شعبیٰ، ابوسلمہ بن عبد الرحمن، ابوقلابہ جرمی اور ابو المہاجر۔ [8]
عام حالات
[ترمیم]شجاعت وشہامت اور جرات ودلیری میں عرب کے ممتاز لوگوں میں تھے، [9] اس لیے آنحضرت ﷺ اہم امور کی تکمیل ان کے سپرد فرماتے تھے۔ [10]