عمرو بن عوف
عمرو بن عوف | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | غزوہ خندق |
درستی - ترمیم |
عمرو بن عوف مُزنی غزوہ بدر میں شریک قدیم الاسلام صحابی رسول اوراصحاب صفہ میں شامل ہیں۔ حافظ ابو عبد اللہ نیشاپوری اور علامہ ابو نعیم اصبہانی نے عمرو بن عوف کو اصحابِ صفہ میں شمار کیا ہے۔[1] نام عمرو، والد کانام عوف، کنیت ابو عبد اللہ، قبیلہ مزینہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ عمرو بن عوف بہت زیادہ تضرع ، گریہ وزاری کرنے والے ، خوفِ خداسے آہ و بکا کرنے والے ہیں، اس آیت ’’تولوا واعینہم تفیض من الدمع‘‘ (لوگ ناکام اس حالت سے واپس چلے جاتے ہیں کہ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے ہیں) کے مصداق حضرت عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ بھی ہیں۔[2] عمرو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ منورہ تشریف لائے ، خود ہی بیان فرماتے ہیں : ہم نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ منورہ آئے اور 17 مہینے تک بیت المقدس کی جانب رخ کرکے نماز پڑھتے رہے ۔ علامہ واقدی کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو کو حرمِ مدینہ منورہ کا خلیفہ بنایا تھا ، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ مدینہ منورہ میں اپنا خلیفہ و جانشیں بنا کر ہی غزوے میں تشریف لے جاتے تھے۔ علامہ ابن سعد کہتے ہیں : عمرو بن عوف کی حدیث ان کے پوتے کثیر بن عبد اللہ بن عمرو بن عوف اپنے دادا عمرو بن عوف سے روایت کرتے ہیں اور کثیر بن عبد اللہ ضعیف راوی ہیں۔ ان کا انتقال امیر معاویہ کے عہدِ خلافت میں ہوا۔[3]
نام و نسب
[ترمیم]عمرو نام، ابو عبد اللہ کنیت،سلسلہ نسب یہ ہے، عمروبن عوف بن زید بن ملیحہ ابن عمرو بن بکر بن افرک بن عثمان بن عمرو بن اوبن طانجہ بن ایساس بن مضر۔
اسلام و ہجرت
[ترمیم]عمرو بن عوفؓ ابتدائے دعوتِ اسلام میں مشرف باسلام ہوئے اور آنحضرت ﷺ کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ آئے۔ [4]
غزوات
[ترمیم]ابن سعد کی روایت کے مطابق حضرت عمرو بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ سب سے پہلے غزوۂ ابواء میں شریک ہوئے ؛لیکن بعض غزوہ خندق بتاتے ہیں۔ [5]
غزوۂ تبوک
[ترمیم]غزوۂ تبوک کے زمانہ میں عرب میں ایسا سخت قحط تھا کہ ذی حیثیت صحابہ کے لیے اس میں شریک ہونے کا انتظام مشکل تھا ،نادار صحابہ کا تو ذکر ہی نہیں؛ چنانچہ جب آنحضرت ﷺ نے غزوۂ تبوک کے لیے تیاریاں شروع کیں اور دولتمند صحابہ نے اپنا سازو سامان درست کیا تو وہ صحابہ جو ایمان کی لازوال دولت کے سوا مادی دولت سے تہی دامن تھے، خدمت نبوی میں حاضر ہوئے،ان میں حضرت عمروؓ بھی تھے، ان سب نے مل کر درخواست کی کہ ہم بالکل بے مایہ ہیں،اگر ہمارے لیے کچھ انتظام فرمایا جائے، تو ہم بھی شرف جہاد سے محروم نہ رہیں،یہاں فقر وفاقہ کے سوا کیا تھا، جواب ملا، میرے پاس کیا ہے یہ لوگ جہاد کی محرومی پر غمگین و ملول روتے ہوئے واپس ہوئے، مگر ان آنسوؤں نے دامن رحمت کو نم کر دیا اور اس حکم نے ان کو جہاد سے مستثنیٰ کر دیا۔ [6] وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّوْا وَأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّا يَجِدُوا مَا يُنْفِقُونَ [7] اور نہ ان لوگوں پر الزام ہے جو تمھارے پاس آئے کہ ان کو سواری بہم پہنچادو تو تم نے جواب دیا کہ میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر تم کو سوار کروں (یہ سن کر) وہ لوٹ گئے اور خرچ نہ میسر آنے کے غم میں ان کی آنکھیں اشکبار تھیں۔ [8][9][10]
وفات
[ترمیم]حضرت عمرو بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت امیر معاویہؓ کے عہدِ خلافت میں مدینہ میں وفات پائی۔ [11]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ حلیۃ الأولیاء: 2/10
- ↑ تہذیب التہذیب : 8/69
- ↑ ، الإصابۃ : 3/6
- ↑ (استیعاب:2/450)
- ↑ (اصابہ:5/9)
- ↑ (تفسیر ابن جریر:10/136)
- ↑ (توبہ:92)
- ↑ ابن حجر العسقلاني (1415 هـ)۔ مدیران: عادل الموجود، على معوض۔ الإصابة في تمييز الصحابة (بزبان العربية)۔ 4 (1 ایڈیشن)۔ بيروت: دار الكتب العلمية۔ صفحہ: 552۔ 27 دسمبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ ابن عبد البر (1992)۔ مدیر: علي محمد البجاوي۔ الاستيعاب في معرفة الأصحاب (بزبان العربية)۔ 3 (1 ایڈیشن)۔ بيروت: دار الجيل۔ صفحہ: 1196۔ 27 ديسمبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ ابن الأثير (1994)۔ مدیران: علي معوض، عادل عبد الموجود۔ أسد الغابة (بزبان العربية)۔ 4 (1 ایڈیشن)۔ بيروت: دار الكتب العلمية۔ صفحہ: 247۔ 27 ديسمبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ (استیعاب:2/451)