مندرجات کا رخ کریں

حرام بن ملحان

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حرام بن ملحان
معلومات شخصیت
تاریخ وفات سنہ 625ء   ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں غزوۂ بدر ،  غزوہ احد   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

حرام بن ملحان رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوہ بدر میں شریک صحابی اور قاری کے لقب سے ملقب تھے۔ شروع میں ہی انھوں نے اپنی بہن حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ اسلام قبول کر لیا تھا ۔ سریہ بئر معونہ میں شہادت نوش کی۔

نام و نسب

[ترمیم]

حرام نام، قاری لقب ،سلسلہ نسب یہ ہے، حرام بن مالک (ملحان) بن خالد بن زید بن حرام بن جندب بن عامر، بن غنم بن عدی بن نجار بن ثعلبہ بن عمرو بن خزرج، ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بھائی تھے،جو آنحضرت کی خالہ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ صحابی مشہور کی والدہ ماجدہ تھیں۔ [1]

اسلام

[ترمیم]

بنو نجار، صدائے اسلام پر لبیک کہنے میں تمام انصار کے پیش پیش رہے تھے ام سلیم رضی اللہ عنہا کی وجہ سے خاندان عدی اسلام کے نام سے آشنا ہو چکا تھا، اس لیے بھائی نے بھی قبول اسلام میں سبقت کی۔

غزوات اور وفات

[ترمیم]

غزوہ بدر اور احد کے معرکوں میں ان کی شرکت کا پتہ نہیں چلتا، سریہ بئر معونہ میں جو احد کے بعد ہوا تھا ان کے موجود تھے۔[2] ایک مرتبہ آنحضرت کے پاس کچھ لوگ یہ درخواست لے کر آئے کہ ہمارے ملک میں اشاعتِ اسلام کے لیے کچھ آدمی بھیج دیجئے جو قرآن وسنت کی اچھی طرح تعلیم دے سکیں، آپ نے 70 آدمیوں کو جو قراء کے لقب سے مشہور تھے، ان کے ساتھ کر دیا، حرام بھی اسی جماعت میں تھے،وہاں پہنچ کر ایک مقام پر قیام کیا، حرام دو آدمیوں کے ساتھ جن میں سے ایک کے پاؤں میں لنگ تھا قبیلہ میں اشاعتِ اسلام کے لیے گئے اور یہ کہہ کر ان کو قریب چھوڑ دیا کہ تم یہیں ٹھہرو، پہلے میں جاتا ہوں اگر زندہ بچ گیا تو خیر، ورنہ تم دوڑ کر ہمارے ساتھیوں کو خبر کر دینا اور قبیلہ میں جاکر کہا کہ میں آنحضرت کی رسالت پر کچھ کہنا چاہتا ہوں، تم مجھے امان دیتے ہو؟ ادھر ان کی تقریر شروع ہوئی تھی کہ ادھر قبیلہ والوں نے ایک شخص کو اشارہ کر دیا جس نے پیچھے سے نیزہ کا وار کیا جو ایک پہلو کو توڑ کر دوسرے پہلے سے نکل گیا،حرام نے زخم کا خون لے کر چہرہ اور سر پر چھڑکا اور فرمایا اللہ اکبر! "فزت ورب الکعبہ"رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوا،دونوں ساتھیوں میں سے جن کے پاؤں میں لنگ تھا پہاڑ میں چھپ رہے،دوسرے نے مسلمانوں کو خبر کی،واقعہ سن کر سب موقع پر پہنچ گئے اور اسی جگہ لڑ کر جامِ شہادت نوش کیا۔ آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو آپ نے ایک مہینہ تک قاتلین کے حق میں بد دعا کی۔[3] [4][5]

فضل و کمال

[ترمیم]

حضرت حرام بن ملحان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قرآن وحدیث میں اس قدر عبور تھا کہ نجد میں ان کی اشاعت کے لیے مقرر کیے گئے، صحیح مسلم میں ہے کہ قرآن پڑھا کرتے اور رات کے وقت اس کا درس دیتے تھے، اسی وجہ سے قاری لقب پڑ گیا تھا۔ [6] [7]

اخلاق

[ترمیم]

حرام بن ملحان رضی اللہ تعالیٰ عنہ رات کو نماز پڑھتے ،دن کو مختلف نیک کام کرتے، مسجد نبوی میں پانی بھر کر رکھتے ، لکڑی کاٹ کر فروخت کرتے،[8] اور اس سے اصحاب صفہ اور دوسرے محتاج مسلمانوں کی غذا مہیا کرتے تھے۔ [9] ان کریمانہ اخلاق میں جوش ملی جس کا نظارہ اوپر ہو چکا ہے، ایسا دیدہ زیب مرقع پیش کرتا ہے، جس کے بعد دوسرے مرقع کی حاجت نہیں رہتی۔

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. انظر ترجمته في : أسد الغابة 1/712 رقم 1124، والاستيعاب 1/336 رقم 497، وتاريخ الصحابة ص78 رقم 302، والإصابة 1/319 رقم 1654
  2. بخاری:2/595
  3. بخاری:586
  4. الطبقات الكبرى لابن سعد - حرام بْن ملحان آرکائیو شدہ 2017-04-04 بذریعہ وے بیک مشین
  5. أسد الغابة في معرفة الصحابة - حرام بن ملحان آرکائیو شدہ 2017-04-04 بذریعہ وے بیک مشین
  6. (مسلم:2/108)
  7. صحيح البخاري 4/ 18 رقم 2801. 5/ 105 رقم 4091.صحيح مسلم 3/ 1511 رقم 677 واللفظ له.
  8. (مسلم:2/108)
  9. (مسلم:2/108)