"زیاد بن لبید" کے نسخوں کے درمیان فرق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
م خودکار: درستی املا ← 9، 2، 3، 4، ہو گئے، 1، 5، 6، 8
درستی کے لیے
سطر 23: سطر 23:
}}
}}
'''زیاد بن لبید''' غزوہ بدر میں شامل فقہا صحابہ میں تھے۔
'''زیاد بن لبید''' غزوہ بدر میں شامل فقہا صحابہ میں تھے۔
== نام ونسب ==
=== نام ونسب ===
زیاد نام ،ابو عبد اللہ کنیت،قبیلۂ خزرج کے خاندان بیاضہ سے ہیں،سلسلہ نسب یہ ہے،زیاد بن لبید بن ثعلبہ بن سنان بن عامر بن عدی بن امیہ بن بیاضہ بن عامر بن زریق بن عبد حارثہ بن مالک بن غضب بن جشم بن خزرج۔
زیاد نام ،ابو عبد اللہ کنیت،قبیلۂ خزرج کے خاندان بیاضہ سے ہیں،سلسلہ نسب یہ ہے،زیاد بن لبید بن ثعلبہ بن سنان بن عامر بن عدی بن امیہ بن بیاضہ بن عامر بن زریق بن عبد حارثہ بن مالک بن غضب بن جشم بن خزرج۔
== اسلام ==
=== اسلام ===
[[بیعت عقبہ|بیعتِ عقبہ]] میں شریک تھے،جب مدینہ میں مہاجرین کی آمد شروع ہوئی تو انصار کی ایک جماعت جو چار آدمیوں پر مشتمل تھی،مکہ پہنچی جس میں ایک زیادتھے،وہاں سے بہت سے صحابہ کے ساتھ مدینہ واپس آئے،اس بنا پر یہ لوگ انصاری بھی تھے اور مہاجر بھی۔
[[بیعت عقبہ|بیعتِ عقبہ]] میں شریک تھے،جب مدینہ میں مہاجرین کی آمد شروع ہوئی تو انصار کی ایک جماعت جو چار آدمیوں پر مشتمل تھی،مکہ پہنچی جس میں ایک زیادتھے،وہاں سے بہت سے صحابہ کے ساتھ مدینہ واپس آئے،اس بنا پر یہ لوگ انصاری بھی تھے اور مہاجر بھی۔
== غزوات ==
=== غزوات ===
غزوات ،بدر،احد،خندق،اورتمام غزوات میں شریک تھے۔9ھ میں آنحضرتﷺ نے یمن کا حاکم بنایا، یہ ملک 5 حصوں پر تقسیم تھا <ref>(استیعاب:1/246،حالات معاذ بن جبل)</ref> حضرت زیادؓ حضرت موت کے عامل تھے،صدقات کا محکمہ بھی ان کے زیر ریاست تھا ۔
غزوات ،بدر،احد،خندق،اورتمام غزوات میں شریک تھے۔9ھ میں آنحضرتﷺ نے یمن کا حاکم بنایا، یہ ملک 5 حصوں پر تقسیم تھا <ref>(استیعاب:1/246،حالات معاذ بن جبل)</ref> حضرت زیادؓ حضرت موت کے عامل تھے،صدقات کا محکمہ بھی ان کے زیر ریاست تھا ۔
آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد جب اہل یمن مرتد ہو گئے،اورزکوٰۃ بند کردی تو حضرت ابوبکرؓ نے زیاد کو اس بارہ میں لکھا، انہوں نے شاہان کندہ پر شبخون مار کر فتح حاصل کی،اشعث بن قیس کا محاصرہ کرکے شکست دی اور اس کو دارالخلافت روانہ کیا،حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:
آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد جب اہل یمن مرتد ہو گئے،اورزکوٰۃ بند کردی تو حضرت ابوبکرؓ نے زیاد کو اس بارہ میں لکھا، انہوں نے شاہان کندہ پر شبخون مار کر فتح حاصل کی،اشعث بن قیس کا محاصرہ کرکے شکست دی اور اس کو دارالخلافت روانہ کیا،حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:
سطر 34: سطر 34:
یعنی انہوں نے مرتدین کی جنگ میں بڑی جانبازی دکھائی۔
یعنی انہوں نے مرتدین کی جنگ میں بڑی جانبازی دکھائی۔
خلافت صدیقی <ref>(طبری:4/136)</ref> اورفاروقی میں بھی اسی خدمت پر ممتاز رہے، <ref>(یعقوبی:2/186)</ref> اس فرض سے سبکدوشی کے بعد کوفہ کی سکونت اختیار کی،بعض کا خیال ہے کہ شام میں قیام کیا تھا۔
خلافت صدیقی <ref>(طبری:4/136)</ref> اورفاروقی میں بھی اسی خدمت پر ممتاز رہے، <ref>(یعقوبی:2/186)</ref> اس فرض سے سبکدوشی کے بعد کوفہ کی سکونت اختیار کی،بعض کا خیال ہے کہ شام میں قیام کیا تھا۔
== یمن کے حاکم ==
=== یمن کے حاکم ===
9ھ میں آنحضرتﷺ نے یمن کا حاکم بنایا، یہ ملک 5 حصوں پر تقسیم تھا <ref>استیعاب:1/246،حالات معاذ بن جبل</ref> زیاد حضرت موت کے عامل تھے،صدقات کا محکمہ بھی ان کے زیر ریاست تھا ۔
9ھ میں آنحضرتﷺ نے یمن کا حاکم بنایا، یہ ملک 5 حصوں پر تقسیم تھا <ref>استیعاب:1/246،حالات معاذ بن جبل</ref> زیاد حضرت موت کے عامل تھے،صدقات کا محکمہ بھی ان کے زیر ریاست تھا ۔
آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد جب اہل یمن مرتد ہو گئے،اورزکوٰۃ بند کردی تو ابوبکرنے زیاد کو اس بارہ میں لکھا، انہوں نے شاہان کندہ پر شبخون مار کر فتح حاصل کی،اشعث بن قیس کا محاصرہ کرکے شکست دی اور اس کو دارالخلافت روانہ کیا، انہوں نے مرتدین کی جنگ میں بڑی جانبازی دکھائی۔
آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد جب اہل یمن مرتد ہو گئے،اورزکوٰۃ بند کردی تو ابوبکرنے زیاد کو اس بارہ میں لکھا، انہوں نے شاہان کندہ پر شبخون مار کر فتح حاصل کی،اشعث بن قیس کا محاصرہ کرکے شکست دی اور اس کو دارالخلافت روانہ کیا، انہوں نے مرتدین کی جنگ میں بڑی جانبازی دکھائی۔
خلافت صدیقی اورفاروقی میں بھی اسی خدمت پر ممتاز رہے، اس فرض سے سبکدوشی کے بعد کوفہ کی سکونت اختیار کی،بعض کا خیال ہے کہ شام میں قیام کیا تھا۔
خلافت صدیقی اورفاروقی میں بھی اسی خدمت پر ممتاز رہے، اس فرض سے سبکدوشی کے بعد کوفہ کی سکونت اختیار کی،بعض کا خیال ہے کہ شام میں قیام کیا تھا۔
== وفات ==
=== وفات ===
[[41ھ]] میں انتقال ہوا، یہ امیر معاویہ کی حکومت کا پہلا سال تھا۔<ref>اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 844حصہ چہارم مؤلف: ابو الحسن عز الدين ابن الاثير ،ناشر: المیزان ناشران و تاجران کتب لاہور</ref><ref>اصحاب بدر،صفحہ 144،قاضی محمد سلیمان منصور پوری، مکتبہ اسلامیہ اردو بازار لاہور</ref>
[[41ھ]] میں انتقال ہوا، یہ امیر معاویہ کی حکومت کا پہلا سال تھا۔<ref>اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 844حصہ چہارم مؤلف: ابو الحسن عز الدين ابن الاثير ،ناشر: المیزان ناشران و تاجران کتب لاہور</ref><ref>اصحاب بدر،صفحہ 144،قاضی محمد سلیمان منصور پوری، مکتبہ اسلامیہ اردو بازار لاہور</ref>
== فضل وکمال ==
=== فضل وکمال ===
زیادؓ فقہائے صحابہؓ میں تھے، <ref>(تہذیب :3/383)</ref> صحیح ترمذی میں ہےکہ ایک مرتبہ آنحضرت ﷺنے فعمایا کہ اب علم کے اٹھنے کا وقت آپہنچا،زیادؓ نے عرض کیا یہ کیسے ہوسکتا ہے،اب تو علم لوگوں کے رگ وپے میں سرایت کر چکا ارشاد ہوا:
زیادؓ فقہائے صحابہؓ میں تھے، <ref>(تہذیب :3/383)</ref> صحیح ترمذی میں ہےکہ ایک مرتبہ آنحضرت ﷺنے فعمایا کہ اب علم کے اٹھنے کا وقت آپہنچا،زیادؓ نے عرض کیا یہ کیسے ہوسکتا ہے،اب تو علم لوگوں کے رگ وپے میں سرایت کر چکا ارشاد ہوا:
ثکلتک امک یا زیاد !ان کنت لا راک من افقہ رجل بالمدینۃ اولیس الیھود والنصاریٰ یقرؤن التوراۃ والانجیل ولا ینغعون بشئی
ثکلتک امک یا زیاد !ان کنت لا راک من افقہ رجل بالمدینۃ اولیس الیھود والنصاریٰ یقرؤن التوراۃ والانجیل ولا ینغعون بشئی
سطر 47: سطر 47:
<ref>(اصابہ:2/3)</ref>
<ref>(اصابہ:2/3)</ref>
آنحضرت ﷺ سے چند حدیثیں روایت کیں، حلقہ روایت میں عوف بن مالک، جبیر بن نفیر، سالم بن ابی الجعدان کی مسند فضل و کمال کے حاشیہ نشین ہیں۔
آنحضرت ﷺ سے چند حدیثیں روایت کیں، حلقہ روایت میں عوف بن مالک، جبیر بن نفیر، سالم بن ابی الجعدان کی مسند فضل و کمال کے حاشیہ نشین ہیں۔
== حوالہ جات ==
=== حوالہ جات ===
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
{{صحابہ}}
{{صحابہ}}

نسخہ بمطابق 17:44، 3 اگست 2021ء

زیاد بن لبید
معلومات شخصیت
پیدائشی نام زِیَاد بن لَبِید
اولاد عبد اللہ
والدہ عمرہ بنت عبید بن مطروف
عملی زندگی
طبقہ صحابہ
نسب الانصاری الخزرجی البیاضی
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں غزوہ بدر
غزوہ احد
غزوہ خندق
باقی تمام

زیاد بن لبید غزوہ بدر میں شامل فقہا صحابہ میں تھے۔

نام ونسب

زیاد نام ،ابو عبد اللہ کنیت،قبیلۂ خزرج کے خاندان بیاضہ سے ہیں،سلسلہ نسب یہ ہے،زیاد بن لبید بن ثعلبہ بن سنان بن عامر بن عدی بن امیہ بن بیاضہ بن عامر بن زریق بن عبد حارثہ بن مالک بن غضب بن جشم بن خزرج۔

اسلام

بیعتِ عقبہ میں شریک تھے،جب مدینہ میں مہاجرین کی آمد شروع ہوئی تو انصار کی ایک جماعت جو چار آدمیوں پر مشتمل تھی،مکہ پہنچی جس میں ایک زیادتھے،وہاں سے بہت سے صحابہ کے ساتھ مدینہ واپس آئے،اس بنا پر یہ لوگ انصاری بھی تھے اور مہاجر بھی۔

غزوات

غزوات ،بدر،احد،خندق،اورتمام غزوات میں شریک تھے۔9ھ میں آنحضرتﷺ نے یمن کا حاکم بنایا، یہ ملک 5 حصوں پر تقسیم تھا [1] حضرت زیادؓ حضرت موت کے عامل تھے،صدقات کا محکمہ بھی ان کے زیر ریاست تھا ۔ آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد جب اہل یمن مرتد ہو گئے،اورزکوٰۃ بند کردی تو حضرت ابوبکرؓ نے زیاد کو اس بارہ میں لکھا، انہوں نے شاہان کندہ پر شبخون مار کر فتح حاصل کی،اشعث بن قیس کا محاصرہ کرکے شکست دی اور اس کو دارالخلافت روانہ کیا،حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں: وکان لہ بلاء حسن فی قتال اھل الردۃ [2] یعنی انہوں نے مرتدین کی جنگ میں بڑی جانبازی دکھائی۔ خلافت صدیقی [3] اورفاروقی میں بھی اسی خدمت پر ممتاز رہے، [4] اس فرض سے سبکدوشی کے بعد کوفہ کی سکونت اختیار کی،بعض کا خیال ہے کہ شام میں قیام کیا تھا۔

یمن کے حاکم

9ھ میں آنحضرتﷺ نے یمن کا حاکم بنایا، یہ ملک 5 حصوں پر تقسیم تھا [5] زیاد حضرت موت کے عامل تھے،صدقات کا محکمہ بھی ان کے زیر ریاست تھا ۔ آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد جب اہل یمن مرتد ہو گئے،اورزکوٰۃ بند کردی تو ابوبکرنے زیاد کو اس بارہ میں لکھا، انہوں نے شاہان کندہ پر شبخون مار کر فتح حاصل کی،اشعث بن قیس کا محاصرہ کرکے شکست دی اور اس کو دارالخلافت روانہ کیا، انہوں نے مرتدین کی جنگ میں بڑی جانبازی دکھائی۔ خلافت صدیقی اورفاروقی میں بھی اسی خدمت پر ممتاز رہے، اس فرض سے سبکدوشی کے بعد کوفہ کی سکونت اختیار کی،بعض کا خیال ہے کہ شام میں قیام کیا تھا۔

وفات

41ھ میں انتقال ہوا، یہ امیر معاویہ کی حکومت کا پہلا سال تھا۔[6][7]

فضل وکمال

زیادؓ فقہائے صحابہؓ میں تھے، [8] صحیح ترمذی میں ہےکہ ایک مرتبہ آنحضرت ﷺنے فعمایا کہ اب علم کے اٹھنے کا وقت آپہنچا،زیادؓ نے عرض کیا یہ کیسے ہوسکتا ہے،اب تو علم لوگوں کے رگ وپے میں سرایت کر چکا ارشاد ہوا: ثکلتک امک یا زیاد !ان کنت لا راک من افقہ رجل بالمدینۃ اولیس الیھود والنصاریٰ یقرؤن التوراۃ والانجیل ولا ینغعون بشئی یعنی اے زیاد تیری ماں تجھ کو روئے میں تجھ کو نہایت سمجھ دار شخص خیال کرتا تھا کیا دیکھتے نہیں کہ یہودو نصاریٰ تورات وانجیل پڑہتے ہیں ،لیکن ان سے کچھ نفع نہیں اٹھاتے۔ حضرت عبادہؓ نے اس حدیث کو سنا تو فرمایا سچ ہے، سب سے پہلے خشوع اٹھ رہا ہے۔ [9] آنحضرت ﷺ سے چند حدیثیں روایت کیں، حلقہ روایت میں عوف بن مالک، جبیر بن نفیر، سالم بن ابی الجعدان کی مسند فضل و کمال کے حاشیہ نشین ہیں۔

حوالہ جات

  1. (استیعاب:1/246،حالات معاذ بن جبل)
  2. (تہذیب التہذیب :3/383)
  3. (طبری:4/136)
  4. (یعقوبی:2/186)
  5. استیعاب:1/246،حالات معاذ بن جبل
  6. اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 844حصہ چہارم مؤلف: ابو الحسن عز الدين ابن الاثير ،ناشر: المیزان ناشران و تاجران کتب لاہور
  7. اصحاب بدر،صفحہ 144،قاضی محمد سلیمان منصور پوری، مکتبہ اسلامیہ اردو بازار لاہور
  8. (تہذیب :3/383)
  9. (اصابہ:2/3)