نعمان بن بشیر
نعمان بن بشیر | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | سنہ 622ء مدینہ منورہ |
||||||
وفات | سنہ 684ء (61–62 سال) حمص |
||||||
وجہ وفات | سیاسی قتل | ||||||
طرز وفات | قتل | ||||||
شہریت | سلطنت امویہ خلافت راشدہ |
||||||
اولاد | عمرہ بنت نعمان ، حمیدہ بنت نعمان ، ہند بنت نعمان بن بشیر | ||||||
والد | بشیر بن سعد | ||||||
مناصب | |||||||
مقتدر اعلیٰ | |||||||
برسر عہدہ 683 – 684 |
|||||||
در | جند حمص | ||||||
| |||||||
عملی زندگی | |||||||
پیشہ | والی ، محدث ، گورنر | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | عربی | ||||||
عسکری خدمات | |||||||
لڑائیاں اور جنگیں | جنگ صفین ، معرکہ مرج راہط (684ء) | ||||||
درستی - ترمیم |
نعمان بن بشیرصحابی اور بشیر بن سعد کے بیٹے ہیں۔
نام ونسب
[ترمیم]نعمان نام، ابو عبد اللہ کنیت، قبیلۂ خزرج سے ہیں، سلسلۂ نسب یہ ہے، نعمان بن بشیر بن سعد بن ثعلبہ بن خلاس بن زید بن مالک اغربن ثعلبہ بن کعب بن خزرج بن حارث بن الخزرج الاکبر، والدہ کا نام عمرۃ بنت رواحہ تھا، جن کا سلسلۂ نسب مالک اغر پر نعمان کے آبا ءسے مل جاتا ہے۔
خاندان
[ترمیم]نعمان کے والد بشیر بن سعد اوروالدہ عبداللہ بن رواحہ مشہور صحابی کی ہمشیر ہ تھیں، خود بھی صحابیہ تھیں، نعمان ہجرت کے چودھویں مہینے ربیع الثانی 2ھ میں پیدا ہوئے، ہجرت کے بعد انصار میں یہ سب سے پہلے بچے تھے ان کی ولادت کے چھ ماہ بعد عبداللہ بن زبیر پیدا ہوئے۔
غزوات
[ترمیم]حضرت نعمانؓ کے والد بشیرؓ بن سعد بڑے رتبہ کے صحابی تھے، عقبۂ ثانیہ میں 70/انصار کے ہمراہ مکہ جاکر بیعت کی تھی بدر، احد اورتمام غزوات میں آنحضرتﷺ کے ہمرکاب تھے، سقیفہ بنی ساعدہ میں سب سے پہلے انہی نے حضرت ابوبکرؓ سے بیعت کی تھی 12ھ میں حضرت خالد بن ولیدؓ کے ہمراہ مسیلمۂ کذاب کے مقابلہ کو نکلے اورواپسی کے وقت عین التمر کے معرکہ میں شہید ہوئے۔ والدہ بھی جو حضرت عبد اللہ بنؓ رواحہ مشہور صحابی کی ہمشیر ہ تھیں، آنحضرتﷺ سے بیعت کا شرف حاصل کرچکی تھیں، حضرت نعمانؓ ہجرت کے چودھویں مہینے ربیع الثانی 2ھ میں اس مقدس گھر میں پیدا ہوئے، ہجرت کے بعد انصار میں یہ سب سے پہلے بچے تھے ان کی ولادت کے چھ ماہ بعد حضرت عبد اللہ بنؓ زبیر پیدا ہوئے۔ اسلام کی تاریخ میں 2ھ کو خاص اہمیت حاصل ہے، آغاز سال ہی سے قریش اوردیگر ہمسایہ قبائل سے چھیڑ چھاڑ شروع ہوئی تھی، جس کا نتیجہ چند ماہ کے بعد غزوۂ بدر کی صورت میں رونما ہوا، اس سال جو لڑکے پیدا ہوئے، سب میں اس انقلاب انگیز زمانہ کا اثر موجود تھا؛چنانچہ نعمانؓ جو بدر کے وقت 3،4 مہینے کے تھے اورحضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کہ اسی سال پیدا ہوئے، اپنے اپنے وقت میں بڑے بڑے انقلابات کے بانی ہوئے۔
عام حالات
[ترمیم]باپ ماں کو ان سے بڑی محبت تھی، باپ ان کو آنحضرتﷺ کے پاس لاتے اور دعا کراتے تھے، ماں کو اس قدر محبت تھی کہ اپنی باقی اولاد کو محروم کرکے تمام جائداد املاک انہی کے نام منتقل کردینا چاہتی تھیں، ایک روز شوہر کو مجبور کرکے اس پر آمادہ کر لیا اور گواہی کے لیے رسول اللہ ﷺ کو منتخب کیا، بشیر ان کو آنحضرتﷺ کی خدمت میں لے کر آئے اور عرض کیا کہ آپ گواہ رہیں میں فلاں زمین اپنے اس لڑکے کو دیتا ہوں، فرمایا اس کے دوسرے بھائیوں کو بھی حصہ دیا ہے؟ بولے نہیں ارشاد ہوا تو پھر میں ظلم پر گواہی نہیں دیتا، یہ سن کر بشیر اپنے ارادہ سے باز آئے۔[1] چلنے پھرنے کے قابل ہوئے تو آنحضرتﷺ کے پاس پہنچے ایک مرتبہ آنحضرتﷺ کے پاس طائف سے انگور آئے، آپ نے ان کو دو خوشے عنایت کیے اور فرمایا کہ ایک تمھارا ہے اورایک تمھاری والدہ کا، نعمانؓ راستہ میں دونوں خوشے چٹ کر گئے اورماں کو خبر تک نہ کی، چنددنوں کے بعد آنحضرتﷺ نے پوچھا کہ اپنی ماں کو انگور دیدیئے تھے؟ انھوں نے کہا نہیں، آپ نے ان کی گوشمالی کی اور کہا یا غدر! کیوں مکار۔ [2]اسی زمانہ سے نماز وغیرہ کی طرف توجہ کی، آنحضرتﷺ کے واقعات دیکھتے تو ان کو یادرکھنے کی کوشش کرتے، منبر کے قریب بیٹھ کر وعظ سنتے [3] ایک مرتبہ انھوں نے دعوے سے کہا کہ آنحضرتﷺ کی رات کی نماز کے متعلق میں اکثر صحابہؓ سے زیادہ واقف ہوں۔ شب قدر کی راتوں میں آنحضرتﷺ کے ہمراہ جاگے تھے اور نمازیں پڑھی تھیں [4]ربیع الاول 11ھ میں آنحضرتﷺ نے وصال فرمایا اس وقت حضرت نعمانؓ کا سن 8 سال 7 ماہ کا تھا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے عہد خلافت میں امیر معاویہؓ سے جنگ چھڑی تو نعمانؓ نے انھی کا ساتھ دیا اور یہ عجیب بات تھی کہ انصار میں یہی ایک دو صاحب امیر معاویہؓ کے طرفدار تھے؛چنانچہ نعمانؓ کے متعلق صاف طور پر مذکور ہے کہ وہ حضرت معاویہؓ کو دوست رکھتے تھے؛چنانچہ صاحب اسد الغابہ لکھتے ہیں: وکان ھواہ مع معاویۃ ومیلہ الیہ والی ابنی یزید۔ [5] یعنی وہ معاویہ اور یزید دونوں کی طرف مائل تھے۔امیر معاویہؓ نے اس کے صلہ میں ان کو جلیل القدر عہدے دیے، عین التمر میں جناب امیر ؓ کی طرف سے مالک بن کعب ارجی حاکم تھے، امیر معاویہؓ نے ان کو بھیج کر وہاں اسلحہ خانہ پر حملہ کرایا [6] فضالہ بن عبید کے بعد دمشق کا قاضی مقرر کیااور جب یمن پر تسلط ہوا تو عثمان بن ثقفی کے بعد وہاں کا ولی بنایا، اس بنا پر یہ یمن کے (سلطنت بنی امیہ) تیسرے امیر تھے۔59ھ میں امیر معاویہؓ نے ان کو کوفہ کا حاکم بنایا اورتقریباً 9 ماہ تک اس منصب پر مامور رہے، امیر معاویہؓ کے بعد یزید تخت خلافت پر متمکن ہوا، اس نے حضرت امام حسین ؓ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ اورحضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کو بیعت کے لیے مجبور کیا، حضرت امام حسین ؓ نے بیعت سے صاف انکار کیا ادھر کوفہ سے شیعان علی کے خطوط پہنچنے لگے جن میں ان کی خلافت تسلیم کرنے پر بڑی آمادگی کا اظہار تھا، چنانچہ حضرت امام حسینؓ نے حضرت مسلمؓ بن عقیل کو تفتیش حالات کے لیے کوفہ روانہ فرمایا، مسلمؓ کوفہ پہنچے تو شہر کا بڑا حصہ ان کے ساتھ تھا 12، ہزار آدمیوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی، حضرت نعمانؓ کو یہ تمام خبریں پہنچ رہی تھیں، لیکن انھوں نے جگر گوشۂ بتول کے معاملہ میں خاموشی ہی کو ترجیح دی۔ لیکن جب مختار بن ابی عبید کے مکان پر شیعیوں کا اجتماع ہوا اور نقضِ بیعت کی تیاریاں ہوئیں تو نعمانؓ نے منبر پر ایک پرزور خطبہ دیا، جو درج ذیل ہے: أما بعد فاتقوا اللہ عباد اللہ ولا تسارعوا إلى الفتنة والفرقة فإن فيهما يهلك الرجال وتسفك الدماء وتغضب الأموال وكان حليما ناسكا يحب العافية قال إني لم أقاتل من لم يقاتلني ولا أثب على من لا يثب علي ولا أشاتمكم ولا أتحرش بكم ولا أخذ بالقرف ولا الظنة ولا التهمة ولكنكم إن أبديتم صفحتكم لي ونكثتم بيعتكم وخالفتم إمامكم فواللہ الذي لا إلہ غيرہ لأضربنكم بسيفي ما ثبت قائمہ في يدي ولو لم يكن لي منكم ناصر أما إني أرجو أن يكون من يعرف الحق منكم أكثر ممن يرديہ الباطل [7]لوگو! خدا سے ڈرو اور فتنہ اور اختلاف پیدا کرنے میں جلدی نہ کرو، کیونکہ اس میں آدمی ضائع ہوتے ہیں، خونریزیاں ہوتی ہیں اور مال غصب کیے جاتے ہیں، جو شخص مجھ سے نہ لڑے گا میں بھی اس سے نہ لڑوں گا نہ تم کو برا کہوں گا نہ آپس میں جنگ وجدل برپا کروں گا نہ سوء ظن اور تہمت میں ماخوذ کروں گا، لیکن اگر تم نے علانیہ میری نافرمانی کی بیعت توڑی اوربادشاہ سے مخالفت شروع کی تو خدا کی قسم جب تک میرے ہاتھ میں تلوار رہے گی تم کو ماروں گا خواہ تم میں کا ایک شخص بھی میری مدد نہ کرے ہاں مجھے امید ہے کہ تم میں باطل کے بہ نسبت حق کے پہچاننے والے زیادہ موجود ہیں۔ عبد اللہ بن مسلم حلیف بنی امیہ بھی مجمع میں موجود تھا، والی حکومت کا یہ تساہل دیکھ کر جوش میں اٹھا اورکہا کہ آپ کی رائے اس معاملہ میں نہایت کمزور ہے، یہ نرمی کا وقت نہیں اس وقت آپ کو دشمن کے مقابلہ میں سخت ہونا چاہیے، حضرت نعمانؓ نے فرمایا میں خدا کی معصیت میں قوی ہونے سے اس کی اطاعت میں کمزور رہنا زیادہ پسند کرتا ہوں اور جس پردہ کو خدانے لٹکا دیا ہے میں اس کو چاک کرنا مناسب نہیں سمجھتا، عبد اللہ نے وہاں سے واپس آکر یزید کو خط لکھا کہ "مسلم نے کوفہ آکر تسلط کر لیا ہے، اگر آپ کو یہاں حکومت کی ضرورت ہے تو کسی قوی شخص کو بھیجئے کہ آپ کے احکام نافذ کرسکے، نعمان بالکل بود ے شخص ہیں یا عمداً کمزور بن رہے ہیں، عبد اللہ کے ساتھ عمارہ بن عقبہ، عمر بن سعد بن ابی وقاص نے بھی اسی مضمون کے خطوط روانہ کیے، یزید نے نعمانؓ کی بجائے عبید اللہ بن زیاد کو کوفہ کا حاکم بنایا اور وہ شام چلے گئے [8] یہ 60ھ کا واقعہ ہے۔ اس کے بعد حمص کے امیر مقرر ہوئے اور یزید کی وفات تک اسی عہدہ پر قائم رہے 64ھ میں جب معاویہ بن یزید کا انتقال ہو گیا تو حضرت عبد اللہ بنؓ زبیر کی بیعت کی اہل شام کو دعوت دی اوران کی طرف سے حمص کے حاکم مقرر ہوئے، بعض روایتوں میں ہے کہ انھوں نے پہلے تو ابن زبیرؓ کی بیعت لی اس کے بعد خود اپنی بیعت [9] لینا شروع کردی؛ لیکن یہ روایت قرین قیاس نہیں اگر یہ واقعہ ہوتا تو تاریخ اوررجال میں اس کا تذکرہ ہوتا؛ لیکن اکثر تذکرے اس ذکر سے بالکل ساکت ہیں۔ نعمانؓ کی طرح اور لوگ بھی شام میں ابن زبیرؓ کے طرفدار ہو گئے تھے، مروان نے یہ دیکھ کر شام کا سفر کیا اورایک لشکر فراہم کرکے ضحاک بن قیس کے مقابلہ کو بھیجا، ضحاک ابن زبیر کی طرف سے بعض اضلاع شام کے حاکم تھے، نعمان کو خبر ہوئی، تو شرجیل بن ذوالکلاع کے ماتحت کچھ فوج ضحاک کی مدد کے لیے روانہ کی مرج رہط ایک مقام پر لڑائی پیش آئی جس میں ضحاک کو شکست ہوئی، نعمانؓ کو معلوم ہوا تو خوف کی وجہ سے رات کو حمص سے کوچ کیا، مروان نے خالد بن عدی الکلاعی کو چند سوار دیکر تعاقب کے لیے بھیجا۔
وفات
[ترمیم]نعمان نے 65ھ میں وفات پائی اس وقت ان کی عمر 64 سال کی تھی۔حمص کے نواح میں بیران ایک گاؤں ہے وہاں سامنا ہوا، خالد نے نعمانؓ کو قتل کرکے سرکاٹ لیا اور ان کے اہل و عیال کو گرفتار کرکے مروان کے پاس حاضر ہوا، بیوی اپنے شوہر کے انجام کا تماشا دیکھ چکی تھی، درخواست کی کہ ان کا سر میری گود میں دیدو، کیونکہ میں اس کی سب سے زیادہ مستحق ہوں، لوگوں نے سر ان کی گود میں ڈال دیا، یہ اوائل 65ھ کا واقعہ ہے اس وقت حضرت نعمانؓ کی عمر 64 سال کی تھی۔
اہل و عیال
[ترمیم]ان کی بیوی جن کا ابھی ذکر ہوا، خاندان کلب سے تھیں، ان کا عجیب قصہ مشہور ہے، وہ امیر معاویہ کے محل میں تھیں کہ انھوں نے ایک روز یزید کی ماں بسون سے کہا کہ تم اس عورت کو جاکر دیکھو، بسون نے دیکھ کر بیان کیا کہ حسن وجمال کے لحاظ سے اپنا نظیر نہیں رکھتی؛ لیکن اس کی ناف کے نیچے ایک تل ہے، اس لیے یہ اپنے شوہر کا سر اپنی گود میں لے گی؛چنانچہ حبیب بن مسلمہ نے ان سے نکاح کیا اور پھر طلاق دیدی، پھر حضرت نعمانؓ نے نکاح کیا اور قتل ہونے کے بعد جیسا کہ بیسون نے پیشن گوئی کی تھی ان کا سران کی گود میں رکھا گیا۔ [10] اولاد میں تین لڑکے مشہور ہیں اور وہ محمد، بشیر، یزید ہیں۔[11]
فضل وکمال
[ترمیم]حضرت نعمانؓ کو حدیث فقہ سے کامل واقفیت تھی اور اگرچہ نظم ونسق ملک، اقامتِ امن اور دوسری ذمہ داریوں اور مصروفیتوں میں ان علوم کی خدمت کا موقع نہ ملا ؛تاہم دارالامارت فقہ وحدیث کا مخزن بن گیا تھا، ہزاروں مقدمات فیصلہ کے لیے پیش ہوتے تھے جن کو انہی علوم کی وساطت سے وہ فیصل کرتے تھے۔ حضرت نعمانؓ اگرچہ عہدِ نبوت میں ہشت سالہ تھے؛ تاہم بہت سی حدیثیں یاد ہو گئی تھیں بعد میں حضرت عمرؓ اورحضرت عائشہؓ کے فیض صحبت سے مستفیض ہوئے اپنے ماموں ابن رواحہؓ سے بھی حدیث سنی تھی۔ اس معاملہ میں اگرچہ نہایت محتاط تھے تاہم ان کی سند سے 124 روایتیں منقول ہیں فیصلے کے وقت حدیث کا حوالہ دیتے تھے، ایک مرتبہ ایک مقدمہ پیش ہوا، تو فرمایا کہ میں تیرا فیصلہ اسی طرح کروں گا جس طرح آنحضرتﷺ نے ایک شخص کا فیصلہ کیا تھا۔ [12] بعض وقت مسائل بھی بتلاتے تھے اوراس کا زیادہ تر خطبوں میں اتفاق ہوتا تھا خطبے مذہبی اورسیاسی دونوں قسم کے ہوتے تھے اور نہایت فصیح وبلیغ ہوتے تھے طرز ادا اورانداز تعبیر پر جو قدرت تھی اس کو سماک بن حرب نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے" میں نے جن لوگوں کے خطبے سنے ان میں نعمانؓ کو سب سے بڑھ کر پایا" [13] خطبہ میں محل و مقام کے مناسب اعضاء کو حرکت دیتے تھے، ایک مرتبہ کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے تو اس لفظ پر انگلی سے کانوں کی طرف اشارہ کیا۔ [14] آنحضرتﷺ اوراپنے زمانہ کی معاشرت کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا: قَالَ نَبِيُّكُمْ عَلَيْهِ السَّلَام يَشْبَعُ مِنْ الدَّقَلِ وَمَا تَرْضَوْنَ دُونَ أَلْوَانِ التَّمْرِ وَالزُّبْدِ [15] تم مختلف اقسام کے چھوہاروں اورمکھن پر بھی راضی نہیں؛ حالانکہ نبی اکرمﷺ ردی چھوہاروں سے بھی سیر نہ ہوئے۔ ایک مرتبہ منبر پر خطبہ دیا اور اس میں جماعت کو رحمت اور تفریق کو عذاب بنا کر پیش کیا تو یہ اثر ہوا کہ ابو امام باہلی اٹھے اور مجمع کو مخاطب کرکے کہا "علیکم بالسواد الاعظم"[16] تم پر سواداعظم کا اتباع فرض ہے۔ ان مواقع پر جن لوگوں کو حدیثیں سننے کا اتفاق ہوا ان کی تعداد ہزاروں سے متجاوز ہے؛ لیکن وہ لوگ جو تلامذہ خاص کا درجہ رکھتے ہیں حسب ذیل ہیں: شعبی، حمید بن عبد الرحمن، خثیمہ، سماک بن حرب، سالم بن ابی الجعد، ابو اسحٰق، سبیعی، عبد الملک بن عمیر، یسیع کندی، حبیب بن سالم(نعمانؓ کے میر منشی تھے) [17] عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ، عروہ بن زبیر، ابو قلابۃ الجرمی، ابو سلام الاسود، غیر از بن حریث، مفصل بن مہلب بن ابی صفرہ، ازہر بن عبد اللہ حزاری، نثر کے ساتھ نظم میں بھی دخل تھا، یہ اشعار انہی کی طرف منسوب ہیں: وإني لأعطي المال من ليس سائلاً وأدرك للمولى المعاند بالظلم وإني متى ما يلقني صارماً لہ فما بيننا عند الشدائد من صرم فلا تعدد المولى شريكك في الغنى ولكنما المولى شريكك في العدم إذا مت ذو القربى إليك برحمہ وغشك واستغنى فليس بذي رحم ومن ذاك للمولى الذي يستخفہ أذاك ومن يرمي العدو الذي ترمي [18]
اخلاق
[ترمیم]حضرت نعمانؓ شوروشر، فتنہ وفساد اوردیگر انقلابات میں گھر ے رہنے کے باوجود جبروظلم روا نہیں رکھتے تھے، وہ نہایت نرم دل اور رحیم تھے اور شورش کے مواقع پر سختی کی بجائے لطف وکرم سے کام لیتے تھے، مورخ طبری لکھتے ہیں: کان حلیماً ناس کا یحب العافیۃ وہ برد بار، عابد، اورعافیت پسند تھے مسلمؓ بن عقیل کا واقعہ اوراس کے متعلق حضرت نعمانؓ کا خطبہ اوپر نقل ہو چکا، قیس بن الہثیم کو ایک خط لکھا تو اس میں تحریر فرمایا "تم نہایت بدبخت بھائی ہو، ہم نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا اورآپ سے حدیث سنی، تم نے نہ دیکھا نہ حدیث سنی، آپ نے فرمایا ہے کہ قیامت کے قریب بہت سے تیرۂ وتار فتنے اٹھیں گے جن میں آدمی صبح کو مسلمان ہوگا تو شام تک کافر ہوجائے گا اورلوگ دنیا کی تھوڑی منفعت کے لیے اپنا مذہب بیچ ڈالیں گے۔ [19] لیکن یہ نرمی طبع، جبن وبزدلی کا نتیجہ نہ تھی، وہ حلم و تحمل میں جس طرح یکتا تھے شجاعت وبسالت میں بھی نظیر نہیں رکھتے تھے۔ سخاوت کا بھی یہی حال تھا، حمص کے والی ہوئے تو اعشی ہمدانی پہنچا اورکہا کہ میں نے یزید سے مدد کی درخواست کی ؛لیکن اس نے نہ سنی اب تمھارے پاس آیا ہوں کہ کچھ قرابت کا پاس کرو اورمیرا قرض ادا کرو، نعمانؓ کے پاس کچھ نہ تھا قسم کھا کر کہا میرے پاس کچھ نہیں، پھر کچھ سوچ کر کہا، "ہنہ" اور منبر پر کھڑے ہوکر 20 ہزار کے مجمع میں ایک خطبہ دیا جس کا مضمون حسب ذیل ہے: لوگو!غشی ہمدانی تمھارے ابن عم ہیں، مسلمان اور عالی خاندان ہیں ان کو روپیہ کی ضرورت ہے اور تمھارے پاس اسی غرض سے وارد ہوئے ہیں، اب تمھاری کیا رائے ہے، تمام مجمع نے یک زبان ہوکر کہا، جو آپ کا حکم ہو، فرمایا نہیں میں کچھ حکم نہیں دیتا کہا تو فی کس ایک دینا (5روپیہ) فرمایا نہیں دوشخصوں میں ایک دینار، سب نے منظور کیا تو کہا کہ سردست میں ان کو بیت المال سے دیے دیتا ہوں جب تنخواہ کا روپیہ برآمد ہوگا تو وضع کر لیا جائے گا، حضرت نعمانؓ نے 10 ہزار دینار (یہ استیعاب کی روایت ہے، اسد الغابہ میں 40 ہزار دینار لکھا ہے اس حساب سے دو لاکھ روپے ہوئے) (50 ہزار روپیہ) دیے تو اعشی سراپا شکرو امتنان تھا؛چنانچہ حسب ذیل اشعار مدح میں کہے: لم أر للحاجات عند انكماشها كنعمان الندى ابن بشير حاجتوں کے پیش آنے کے وقت میں نے سخی نعمان بن بشیر کی طرح کسی کو نہیں دیکھا إذا قال أوفى بالمقال ولم يكن كعدل إلى الأقوام حبل غرور جب وہ کچھ کہتے ہیں تو اپنے قول کو ایفا کرتے ہیں اس شخص کی طرح نہیں جو لوگوں کی طرف دھوکے کی ڈوری لٹکاتے ہیں فلولا أخو الأنصار كنت كنازل ثوى ما ثوى لم ينقلب بنقير اگر یہ انصاری نہ ہوتے تو میں اس شخص کی طرح ہوتا جو کہیں اتر ٹھہرے اور کچھ لے کر نہ لوٹے متى أكفر النعمان لم أك شاكراً ولا خير فيمن لم يكن بشكور جب میں نعمان کا کفران کروں تو مجھ میں احسان مندی کا مادہ نہیں کہ شکر گزار نہیں اس میں کوئی بھلائی نہیں۔ [20]
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ مسند:4/268
- ↑ (استیعاب:1/310)
- ↑ (مسند:4/269)
- ↑ (مسند:4/272)
- ↑ (اسدالغابہ:5/23)
- ↑ (یعقوبی:2/228)
- ↑ (تاریخ الطبری، باب ذکر الخبر عن مراسلۃ الکوفیین:3/279، شاملۃ38)
- ↑ (طبری:7/228،3839)
- ↑ (اصابہ:6/240)
- ↑ (یہ واقعات یعقوبی:2/305،واستیعاب:1/310 سے لیے گئے ہیں)
- ↑ یعقوبی:2/228
- ↑ (مسند ابن حنبل:4/272)
- ↑ (تہذیب التہذیب:1/448)
- ↑ (مسند:4/269)
- ↑ (مسند احمد، باب حدیث النعمان بن بشیر عن النبی، حدیث نمبر:17633)
- ↑ (ایضا:178)
- ↑ (مسند:4/271)
- ↑ (الاستیعاب، باب بن سعد بن ثعلبۃ الانصاری:1/472)
- ↑ (مسند:4/277)
- ↑ (الاستیعاب، باب بن سعد بن ثعلبۃ الانصاری:1/472)