مندرجات کا رخ کریں

عمار بن یاسر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عمار ابن یاسر
(عربی میں: عمار بن ياسر ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 570ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ [1]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 22 جولا‎ئی 657ء (86–87 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات لڑائی میں مارا گیا   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن مسجد اویس قرنی   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قاتل ابو الغادیہ جُہنی   ویکی ڈیٹا پر (P157) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خلافت راشدہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد یاسر بن عامر [1]  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ سمیہ بنت ابی حذیفہ [1]  ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
نسب یاسر بن عامر (والد)، سمیہ بنت خیاط (والدہ)
پیشہ عسکری قائد ،  والی ،  شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں غزوۂ بدر ،  غزوہ تبوک ،  جنگ یمامہ ،  جنگ جمل ،  جنگ صفین ،  غزوہ احد   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

عمار بن یاسر (56 ق.ھ-37ھ) (کنیت ابو یقظان ) جلیل القدر صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے۔عمار بن یاسر رضی اللّٰہ عنہ قدیم الاسلام اور مہاجرین اولین میں سے ہیں اور یہ ان مصیبت زدہ صحابیوں میں سے ہیں جن کو کفار مکہ نے اس قدر ایذائیں دیں کہ جنہیں سوچ کر بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

ظالموں نے ان کو جلتی ہوئی آگ پر لٹایا، چنانچہ یہ دہکتی ہوئی آگ کے کوئلوں پر پیٹھ کے بل لیٹے رہتے تھے اور جب حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ان کے پاس سے گزرتے اور یہ آپ کو یا رسول اللہ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کہہ کر پکارتے تو آپ ان کے لیے اس طرح آگ سے فرمایا کرتے تھے : یَا نَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلَامًا عَلٰی عَمَّارٍکَمَا کُنْتِ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ (یعنی اے آگ !تو عمار پر اسی طرح ٹھنڈی او ر سلامتی والی بن جا جس طرح تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے ٹھنڈ ی اور سلامتی والی بن گئی تھی۔

آپ کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اسلام قبول کرنے کی و جہ سے ابو جہل نے بہت ستایا یہاں تک کہ ان کی ناف کے نیچے نیزہ مار دیا جس سے ان کی روح پرواز کر گئی اور عہد اسلام میں سب سے پہلے یہ شہادت سے سرفراز ہوگئیں۔ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو طیب و مطیب کے لقب سے پکارا کرتے تھے ۔ یہ 37ھ میں ترانوے برس کی عمر پا کر جنگ صفین میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حمایت میں اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فوجوں سے جنگ کرتے ہوئے شہید ہو گئے ۔ [2] [3] [4] [5] [6] آپ کی شہادت علی کے دورِ خلافت میں 37ھ میں جنگ صفین میں ہوئی جس میں آپ علی بن ابی طالب کی طرف سے لڑے اور معاویہ بن ابو سفیان کی فوج مد مقابل تھی۔صحابہ کرام کے حوالے سے یہ بات معلوم ہونا بھی مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ کچھ احادیث اور تاریخی کتابوں کے واقعات میں راویوں پر علما اسلام کی طرف سے جرح بھی کی گئی ہے اور بہت سے راویوں کے حالات معلوم نہیں ہیں۔مسلمان امت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت اطھار کے بارے میں صحیح عقائد قرآن وسنت اور مستند و صحیح احادیث نبوی سے لیتے ہیں۔بعض روایات جو کتب احادیث و تاریخ میں اہل بدعت راویوں کی بھی ہیں وہ اس لیے قابل اعتبار نہیں کیونکہ علما اسما الرجال نے بدعت سے نسبت رکھنے والی روایات کو مردود و مذموم قرار دیا ہے۔

نام و نسب و خاندان

[ترمیم]

عمار نام، ابوالیقظان کنیت، والد کا نام یاسر ؓ اور والدہ کا نام سمیہ تھا، پورا سلسلہ نسب یہ ہے: عمار بن یاسر بن عامر بن مالک بن کنانہ بن قیس بن الحصین بن الودیم بن ثعلبہ بن عوف بن حارثہ بن عامرالاکبر بن یام بن عنس بن مالک العنسی القحطانی۔ [7]

حضرت عمار ؓ کے والد حضرت یاسر ؓ قحطانی النسل تھے، یمن ان کا اصلی وطن تھا، اپنے ایک مفقودالخبر بھائی کی تلاش میں دوسرے دو بھائی حارث اور مالک کے ساتھ مکہ پہنچے، وہ دونوں واپس لوٹ گئے، لیکن انھوں نے یہیں طرحِ اقامت ڈال دی اور بنو مخزوم سے حلیفانہ تعلق پیدا کرکے ابوحذیفہ بن المغیرہ مخزومی کی ایک لونڈی سمیہ نام سے شادی کرلی جس سے حضرت عمار بن یاسر ؓ پیدا ہوئے، ابو حذیفہ نے حضرت عمارؓ بن یاسر کو ان کے بچپن ہی میں آزاد کر کے تاحیات دونوں باب بیٹے کو لطف و محبت سے اپنے ساتھ رکھا۔[8]

ام المومنین ام سلمہ رضی اللّٰہ عنہا بہت حیادار خاتون تھیں، ابتدا میں جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم ان کے مکان پر تشریف لاتے تو ام سلمہ فرط غیرت سے اپنی شیر خوار بیٹی زینب بنت ابی سلمہ کو گود میں بٹھا لیتیں، آپ یہ دیکھ کر واپس لوٹ جاتے، جب عمار بن یاسر کو جو ام سلمہ کے رضاعی بھائی تھے، معلوم ہوا تو بہت ناراض ہوئے اور لڑکی کو چھین لے گئے۔[9]

اسلام

[ترمیم]

ابوحذیفہ کی وفات کے بعد ہی اسلام کا غلغلہ بلند ہوا، حضرت عمارؓ بن یاسر اور صہیب ابن سنان ؓ ایک ساتھ ایمان لائے تھے، فرماتے ہیں کہ میں نے صہیب بن سنان رومی کو ارقم بن ابی ارقم ؓ کے دروازہ پر دیکھ کر پوچھا "تم کس ارادہ سے آئے ہو" بولے "پہلے تم اپنا ارادہ بیان کرو"میں نے کہا:"محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے مل کران کی کچھ باتیں سننا چاہتا ہوں" بولے "میرا بھی مقصد یہی ہے" غرض دونوں ایک ساتھ داخل ہوئے اور ساقیِ اسلام ﷺ کے ایک ہی جام نے دونوں کو نشہ توحید سے مخمور کر دیا، عمارؓ بن یاسر کے ساتھ یا کچھ آگے پیچھے ان کے والدین بھی مشرف بہ اسلام ہوئے۔[10]

صحیح بخاری کی ایک روایت ہے کہ عمار بن یاسر ؓ جس وقت ایمان لائے، تو انھوں نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے علاوہ صرف پانچ غلام اور دو عورتوں کو آنحضرت کے ساتھ دیکھا، [11] یہ وہ حضرات تھے جنھوں نے اپنے اسلام کو ظاہر کر دیا تھا ورنہ صحیح روایت کی بنا پر اس وقت تک تیس اصحاب سے زیادہ اس دائرہ میں داخل ہو چکے تھے، جنھوں نے مشرکین کے خوف سے اعلان نہیں کیا تھا۔ [12]

حضرت عمارؓ بن یاسر گو ایک بے یارو مددگار غریب الوطن تھے، دنیاوی وجاہت وطاقت بھی حاصل نہ تھی اور سب سے زیادہ ان کی والدہ حضرت سمیہ ؓ اس وقت تک بنی مخزوم کی غلامی سے آزاد نہیں ہوئی تھیں، تاہم جوشِ ایمان نے ایک دن سے زیادہ مخفی ہوکر رہنے نہ دیا، مشرکین نے ان کو اور ان کے خاندان کو ناچار و مجبور دیکھ کر سب سے زیادہ مشقِ ستم بنا لیا، طرح طرح کی اذیتیں دیں، ٹھیک دوپہر کے وقت تپتی ہوئی ریت میں لٹایا دہکتے ہوئے انگاروں سے جلایا اور گھنٹوں پانی میں غوطے دیے لیکن جلوۂ توحید نے کچھ ایسا وارقہ کر دیا تھا کہ ان تمام سختیوں کے باوجود ان کو اسلام سے برگشتہ نہ کر سکے۔[13]

حضرت عمار ؓبن یاسر کی والدہ حضرت سمیہ ؓ کو ابو جہل نے نہایت وحشیانہ طریقے پر اپنے نیزہ سے شہید کیا؛ چنانچہ تاریخ اسلام کی یہ پہلی شہادت تھی، جو استقلال واستقامت کے ساتھ راہِ خدا میں واقع ہوئی، ان کے والد حضرت یاسر ؓ اور بھائی حضرت عبد اللہ ؓ بھی اسی گرداب اذیت میں جان بحق ہوئے۔[14]

ایک دفعہ مشرکین نے حضرت عمارؓ بن یاسر کو دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹا دیا، آنحضرت اس طرف سے گذرے تو ان کے سر پر دستِ مبارک پھیر کر فرمایا "اے آگ تو ابراہیم علیہ السلام کی طرح عمار ؓ پر ٹھنڈی ہوجا" اسی طرح جب ان کے گھر کی طرف سے گذرتے اور خاندانِ یاسر ؓ کو مبتلائے مصیبت دیکھتے تو فرماتے" اے آلِ عمارؓ تمھیں بشارت ہو جنت تمھاری منتظر ہے"۔[15]

ایک دفعہ حضرت یاسرؓ نے آنحضرت سے گردشِ زمانہ کی شکایت کی، ارشاد ہوا"صبر کرو، پھر دعا فرمائی، اے خدا آلِ یاسر ؓ کو بخش دے۔[16]

ایک روز مشرکین نے ان کو پانی میں اس قدر غوطے دیے کہ بالکل بدحواس ہو گئے۔ یہاں تک کہ اس حالت میں ان جفا کاروں نے جو کچھ چاہا ان کی زبان سے اقرار کرا لیا، اس کے بعد گو اس مصیبت سے گلو خلاصی ہو گئی، تاہم غیرت ملی نے عرق عرق کر دیا، دربارِ نبوت میں حاضر ہوئے تو آنکھوں سے آنسوؤں کا دریا جاری تھا، آنحضرت نے پوچھا، عمار ؓ کیا خبر ہے؟ عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! نہایت ہی بُری خبر ہے، آج مجھے اس وقت تک مخلصی نہ ملی جب تک میں نے آپ کی شان میں بُرے الفاظ اوران کے معبودوں کے حق میں کلماتِ خیر استعمال نہ کیے، ارشاد ہوا، تم اپنا دل کیسا پاتے ہو؟ عرض کیا، میرا دل ایمان سے مطمئن ہے، سرورِ کائنات ﷺ نے نہایت شفقت کے ساتھ ان کی آنکھوں سے آنسو کے قطرے پونچھ کر فرمایا، کچھ مضائقہ نہیں اگر یہ پھر ایسا ہی کرو، اس کے بعد ہی قرآن پاک میں یہ آیت نازل ہوئی: مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ۔[17]

جو شخص ایمان لانے کے بعد خدا کا انکار کرے مگر وہ جو مجبور کیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان سے مطمئن ہے اس سے کوئی مواخذہ نہیں۔[18]

ایک مرتبہ حضرت سعید بن جبیر ؓ نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے پوچھا کہ کیا قریش مسلمانوں کو اس قدر اذیت پہنچاتے تھے کہ وہ اپنا مذہب چھوڑ دینے پر مجبور ہوجائیں؟ بولے، خداکی قسم ہاں!وہ ان کو مارتے تھے، بھوکا اور پیاسا رکھتے تھے، یہاں تک کہ ضعف اور کمزوری سے وہ اُٹھنے بیٹھنے سے بھی مجبور ہو جاتے تھے، اسی حالت میں وہ جو کچھ چاہتے تھے ضمیر کے خلاف ان سے اقرار کرا لیتے تھے"[19]

غرض حضرت عمارؓ بھی ان مصائب میں گرفتار تھے، انھوں نے راہِ خدا میں صبرو استقامت کے ساتھ گو ناگوں مصائب اور مظالم برداشت کیے، لیکن آئینہ دل سے توحید کا عکس زائل نہ ہوا، ضعیفی کے عالم میں جن لوگوں نے ان کی پیٹھ ننگی دیکھی تھی، وہ بیان کرتے ہیں کہ اس وقت تک کثرت کے ساتھ سیاہ لکیریں، تپتی ہوئی ریت اور دہکتے ہوئے انگاروں کے داغ ان کی پیٹھ میں موجود تھے۔[20]

ہجرت

[ترمیم]

ان کے حبشہ کی ہجرت کے متعلق اربابِ سیر میں اختلاف ہے، بعضوں کا خیال ہے کہ وہ دوسری ہجرت میں شریک تھے، مدینہ کی ہجرت کا عام حکم ہوا تو حضرت عمارؓ بن یاسر نے بھی اس سر زمین امن کی راہ لی اور حضرت مبشر بن عبدالمنذر ؓ کے مہمان ہوئے، آنحضرت نے یہاں حضرت حذیفہ ؓ بن الیمان انصاری سے بھائی چارہ کرا دیا اور مستقل سکونت کے لیے ایک قطعہ زمین مرحمت فرمایا۔[21]

تعمیر مسجد

[ترمیم]

مدینہ کی ہجرت کے چھ سات مہینوں کے بعد مسجدِ نبوی ﷺ کی بنا ڈالی گئی، سرورِ کائنات ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کو جوش دلانے کے لیے خود کام میں حصہ لیا، حضرت عمارؓ اینٹ گارا لالا کر دیتے تھے اور زبان پر رجز جاری تھا:

نحن المسلمون نبتنی المساجد۔ہم مسلمان ہیں ہم مسجد بناتے ہیں۔ [22]

حضرت ابوسعید ؓ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ ایک ایک اینٹ اٹھاتے تھے اور عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ دو دو اینٹ اٹھاتے تھے، ایک دفعہ آنحضرت کی طرف سے گذرے تو آپ نے نہایت شفقت کے ساتھ ان کے سر سے غبار صاف کرکے فرمایا افسوس عمار ؓ!تمھیں باغی گروہ قتل کرے گا۔[23]

ایک دفعہ کسی نے ان کے سر پر اس قدر بوجھ لاد دیا کہ لوگ چلا اُٹھے، آج عمار بن یاسر ؓ مرجائیں گے، آج عمارؓ بن یاسر مر جائیں گے، وہ اس سے پہلے بھی تکلیف مالایطاق کی شکایت کر چکے تھے، آنحضرت نے سنا تو کچھ اینٹیں اتار کر پھینک دیں اور فرمایا، افسوس ابن سمیہ ؓ تمھیں گروہ باغی قتل کر دے گا۔[24]

غزوات

[ترمیم]

غزوۂ بدر سے غزوۂ تبوک تک جس قدر اہم معرکے پیش آئے، سب میں وہ جانبازی شجاعت کے ساتھ حضرت خیر الانام کے ہمرکاب رہے، عہد صدیقی کی اکثر خونریز جنگوں میں بھی خوب دادِ شجاعت دی، حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ یمامہ کی جنگ میں ان کا ایک کان شہید ہو گیا، جو سامنے ہی زمین پر پھڑک رہا تھا، لیکن وہ بے پروائی کے ساتھ حملے پر حملے کر رہے تھے اور جس طرف رخ کرتے تھے صفیں کی صفیں تہ وبالا کر دیتے تھے، ایک دفعہ مسلمانوں کے پاؤں پیچھے پڑنے لگے ، انھوں نے ایک بلند چٹان پر کھڑے ہوکر للکارا، اے گروہِ مسلمانان! کیا جنت سے بھاگ رہے ہو؟ میں عمار بن یاسر ؓ ہوں، آؤ میرے پاس آؤ [25]اس صدا نے سحر کا کام کیا اور جنت کے شیدائی یکایک سنبھل کر ٹوٹ پڑے۔

کوفہ کی حکومت

[ترمیم]

خلیفہ دوم ؓ نے 20ھ میں ان کو کوفہ کا والی بنایا اور اہل کوفہ کے نام حسب ذیل فرمان جاری فرمایا:

"أما بعد فإن بعثت إليكم عمار بن ياسر أميرا وابن مسعود معلما ووزيرا وقد جعلت ابن مسعود على بيت مالكم وإنهما لمن النجباء من أصحاب محمد من أهل بدر فاسمعوا لهما وأطيعوا واقتدوا بهما وقد آثرتكم بابن أم عبد على نفسي وبعثت عثمان بن حنيف على السواد ورزقتهم كل يوم شاة فاجعل شطرہا وبطنها لعمار والشطر الثاني بين هؤلا الثلاثة"۔[26]

اما بعد میں عمار بن یاسر ؓ کو امیر اور عبداللہ ابن مسعود ؓ کو معلم اور وزیر مقرر کرکے بھیجتا ہوں، خزانہ کا اہتمام وانصرام بھی ابن مسعود ؓ کے متعلق کیا ہے، یہ دونوں حضرت محمد کے ان شریف اصحاب میں سے ہیں جو غزوۂ بدر میں شریک تھے، اس لیے ان دونوں کی فرماں برداری اطاعت اور پیروی کرو، میں نے ام عبد کے بیٹے (عبداللہ بن مسعود ؓ) کو اپنے سے الگ کرکے تمھارے پاس بھیج کر تم کو اپنے اوپر ترجیح دی ہے، عثمان بن حنیف کو عراق (کی پیمائش) پر مامور کرکے بھیجتا ہوں اور ان کے رسد کے لے روزانہ ایک بکری مقرر کرتا ہوں جس کا ایک حصہ اور شکم عمار کے لیے مخصوص رہے گا اور باقی حصے ان تینوں میں تقسیم ہوں گے۔

حضرت عمار بن یاسر ؓ نے ایک سال 9 ماہ تک نہایت خوش اسلوبی اور بیدار مغزی کے ساتھ اپنے فرائض منصبی انجام دیے، لیکن اسی اثناء میں اہل بصرہ اور اہل کوفہ کی باہمی منافست اورحضرت عمارؓ کی غیر جانبداری نے کوفہ کے رئیسوں کو ان سے ناراض کر دیا ، واقعہ کی تفصیلی کیفیت یہ ہے:

بصرہ کی کثرت آبادی کے لحاظ سے اس صوبہ کا رقبہ نہایت مختصر تھا، اس بنا پر عمرو بن سراقہ نے بصرہ والوں کی طرف سے دربار خلافت میں درخواست کی کہ کوفہ کے وسیع علاقہ سے ماہ یاباسبندان کا پرگنہ بصرہ میں شامل کر دیا جائے، کوفہ والوں کو خبر ہوئی تو وہ عمار بن یاسر ؓ والیِ کوفہ سے خواستگار ہوئے کہ وہ اس کی مخالفت کریں اور امیر مز اور ایذج کے اضلاع پر بھی اپنا دعویٰ پیش کریں، کیونکہ ان دونوں کو اہلِ بصرہ کی اعانت وامداد کے بغیر ہم لوگوں نے فتح کیا تھا، لیکن حضرت عمارؓ بن یاسر نے سر مہری کے ساتھ اس کو ٹال دیا اور فرمایا، مجھے ان جھگڑوں کی کیا ضرورت ہے؟ اس پر ایک کوفی رئیس عطارد نے غضبناک ہو کر کہا"اے کن کٹے !پھر تو ہم سے خراج کس بنا پر طلب کرتا ہے؟ "حضرت عمارؓ بن یاسر صرف یہ کہہ کر خاموش ہو رہے " افسوس تم نے میرے سب سے بہتر اور محبوب کان کو گالی دی۔[27]

غرض حضرت عمارؓ بن یاسر نے اس معاملہ میں بالکل غیر جانبداری اختیار کرلی اور کوفہ والوں کے احتجاج کے باوجود رامہرمز، ایذج اور ماہ کا علاقہ بصرہ میں شامل کر دیا گیا، یہ نقصان ایسا نہ تھا جو والی کی طرف سے اہل کوفہ کے دلوں میں ناراضی کی گرہ نہ ڈالتا، اس کے بعد ہی شکوۃ شکایت اور سازش کا سلسلہ شروع ہوا اور امیر المومنین کو باور کرایا گیا کہ وہ اس منصب کی اہلیت نہیں رکھتے، انجام کار دار الخلافہ بلا کر اس عہدہ سے معزول کیے گئے، [28] حضرت عمرؓ بن خطاب نے معزولی کے بعد دوسرے روز بلا کر پوچھا کہ"تم میرے اس طریق عمل سے کچھ ناراض تو نہ ہوئے؟" بولے جب آپ پوچھتے ہیں تو حقیقت یہ ہے کہ میں نہ تو پہلے اپنی تقرری سے خوش ہوا تھا اور نہ اب اپنی معزولی سے ناراض ہوں۔[29]

تحقیقات پر مامور ہونا

[ترمیم]

خلیفہ ثالث ؓ کے عہدِ حکومت میں تمام ملک شورش و فتنہ پردازی کا آماجگاہ ہو گیا، 35ھ میں خلیفہ وقت نے اس شورش کے اصلی اسباب کی تحقیق و تفتیش کے لیے ایک تحقیقاتی کمیشن مرتب کیا، حضرت عمار بن یاسر ؓ بھی اس کے ایک رکن قرار پائے اور فتنہ پردازی کے اصل مرکز صوبہ مصر کی طرف روانہ کیے گئے۔


خلیفہ ثالث ؓ سے اختلاف

[ترمیم]

تحقیقاتی کمیشن کے تمام ارکان نے بہت جلد اپنے متعلقہ مقامات سے واپس آکر قابلِ اطمینان رپورٹ پیش کردی،لیکن عمارؓ بن یاسر کی واپسی میں غیر معمولی تاخیر ہو گئی اور دارالخلافہ میں ان کی نسبت طرح طرح کے خیالات پیدا ہونے لگے ، یہاں تک کہ عبداللہ بن ابی سرح والیِ مصر کے ایک خط نے توقف کی اصلی وجہ ظاہر کردی، اس خطہ کے فقرے یہ ہیں:

ان عماراقداستمالہ قوم بمصر وقد انقطعواالیہ منہم عبد اللہ بن السوداء خالد بن بلجم وسودان بن حمران وکنانہ بن بشر عمار بن یاسر کو مصر کی ایک قوم نے اپنا طرفدار بنالیا ہے اور ان میں سے عبد اللہ بن اسودا اور خالد بن ملجم سود بن حمران اور کنانہ بن بشران کی طرف جاملے ہیں۔

غرض وہ مصر سے واپس آئے تو انقلاب پسند جماعت کا اثر ان کے خیالات میں نمایاں تھا، [30] عام مجمعوں میں علانیہ حضرت عثمان ؓ کے طرزِ حکومت اور عمال کی بے اعتدالیوں پر نکتہ چینی کرتے تھے، یہاں تک کہ اسی حالت میں کبھی کبھی طرفدارانِ خلافت سے جھڑپ بھی ہو گئی، ایک دفعہ حضرت عثمان ؓ کے غلاموں نے ان کو اس قدر مارا کہ تمام جسم ورم کرگیا، شکم میں خراش آگئی اور پسلی کی ایک ہڈی کو سخت صدمہ پہنچا، بنی مخزوم نے جن سے جاہلیت میں حلف وموالات کا تعلق تھا یہ سن کر کاشانۂ خلافت کو گھیر لیا اور دھمکی دی کہ اگر عمار بن یاسرؓ اس صدمہ سے جانبر نہ ہوں گے تو ہم ضرور انتقام لیں گے۔[31]

اس قسم کے واقعات سے اختلاف کی خلیج روز بروز زیادہ وسیع ہوتی گئی، یہاں تک کہ جب مصری مفسدین مدینہ پہنچے اور حضرت عثمان غنی ؓ نے حضرت سعد بن وقاص ؓ کی معرفت کہلا بھیجا کہ وہ اپنے اثر سے ان کو واپس کر دیں تو انھوں نے صاف انکار کر دیا، [32] بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ محاصرہ کی کارروائی میں شریک تھے۔

سفارتِ کوفہ

[ترمیم]

حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے بعد خلافت کا بارِ گراں حضرت علی ؓ کے سر ڈالا گیا، حضرت عمارؓ بن یاسر کو ان سے جو خاص انس و خلوص تھا اس کے لحاظ سے تمام مہماتِ امور میں وہ ان کے دست و بازو ثابت ہوئے، حضرت عائشہ ؓ، حضرت زبیر ؓ اور حضرت طلحہ ؓ وغیرہ نے جب شہید خلیفہ کے قصاص کا مطالبہ کرکے جنگی تیاریوں کے لیے بصرہ کا رخ کیا تو خلیفۂ چہارم کے حکم سے وہ حضرت امام حسن ؓ کے ساتھ کوفہ کی طرف روانہ ہوئے کہ اہل کوفہ کو خلافت کے تحفظ و حمایت پر آمادہ کریں۔ حضرت عمارؓ بن یاسر کوفہ پہنچے تو حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ جامع مسجد میں ایک مجمع کے سامنے غیر جانبداری کا وعظ بیان فرما رہے تھے، حضرت امام حسن ؓ نے ان سے فرمایا تم ابھی ہماری مسجد سے نکل جاؤ اور منبر پر کھڑے ہوکر ایک نہایت پرجوش تقریر کی، [33] حضرت عمارؓ بن یاسر بھی ان کے ساتھ منبر پر چڑھ گئے اور تقریر کرتے ہوئے فرمایا "صاحبو! بے شک میں جانتا ہوں کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا دنیا اور آخرت میں حضرت سرورِ کائنات کی حرمِ محترم ہیں، لیکن اس وقت خدا تمھاری آزمائش کر رہا ہے کہ تم اس کی فرما نبرداری کرتے ہو یا عائشہ ؓ کا ساتھ دیتے ہو، [34] حجر بن عدی نے حضرت عمار ؓ کی تائید کی اور دوسرے روز صبح کے وقت تقریبا ساڑھے نو ہزار جانباز سپاہیوں کی ایک فوجِ گراں حضرت عمارؓ کے ساتھ ہو گئی۔[35]

جنگ جمل

[ترمیم]

ماہ جمادی الاخریٰ 36ھ میں دونوں طرف کی فوجیں مقام ذی قار میں مجتمع ہوئیں، زبیر بن عوام ؓ کو جب معلوم ہوا کہ حضرت عمارؓ بن یاسر بھی حضرت علی ابن ابی طالب ؓ کے ساتھ ہیں تو انھیں نظر آنے لگا کہ وہ غلطی پر ہیں ۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ حق عمار بن یاسر ؓ کے ساتھ ہے اور باغی گروہ ان کو قتل کرے گا، اس کے ساتھ ہی حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے ایک ایسی بات یاد دلائی کہ وہ اس وقت اس خانہ جنگی سے کنارہ کش ہو گئے۔

جمعرات کے روز جنگ شروع ہوئی، حضرت عمارؓ بن یاسر میسرہ پر متعین تھے، چونکہ انھیں یقین تھا کہ وہ حق کا ساتھ دے رہے ہیں، اس لیے غیر معمولی جوش سے لڑے، یہاں تک کہ حامیانِ خلافت کی فتح پر اس افسوس ناک جنگ کا خاتمہ ہوا۔[36]

جنگ صفین

[ترمیم]

علی بن ابی طالب رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی خالص مذہبی سلطنت کو زمانہ برداشت نہ کرسکا، آپ کے خلاف بنی امیہ اور بہت سے وہ لوگ کھڑے ہو گئے جنھیں آپ کی مذہبی حکومت میں اپنے اقتدار کے زائل ہونے کا خطرہ تھا آپ نے ان سب سے مقابلہ کرنا اپنا فرض سمجھا، جمل، صفین اور نہروان کی خون ریز لڑائی ہوئی جنگ صفین جولائی 657 عیسوی میں مسلمانوں کے خلیفہ علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور شام کے باغی گورنر معاویہ بن ابو سفیان کے درمیان میں ہوئی۔ یہ جنگ دریائے فرات کے کنارے اس علاقے میں ہوئی جو اب ملک شام میں شامل ہے۔ اس جنگ میں شامی افوج کے پنتالیس ہزار 45000 اور خلیفہ کی افواج کے پچیس ہزار 25000 افراد مارے گئے۔ جن میں سے بیشتر اصحاب رسول تھے۔ اس جنگ کی پیشینگوئی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کی تھی حضرت عمار بن یاسر رعد کی طرح گرجتے ہوئے جس طرف گھس جاتے تھے صفیں کی صفیں درہم برہم کر دیتے تھے، ایک دفعہ اثنائے جنگ میں حضرت امیر معاویہ ؓ کے علم بردار حضرت عمرو بن العاص ؓ پر نظر پڑی تو بولے میں اسی علمبردار سے تین دفعہ رسول خدا ﷺ کی معیت میں لڑچکا ہوں اب یہ چوتھی مرتبہ ہے، خدا کی قسم اگر وہ ہم کو شکست دیتے ہوئے مقام ہجر تک بھی پسپا کر دیں جب بھی میں یہی سمجھوں گا کہ ہم لوگ حق پر ہیں اور وہ غلطی پر۔[37]

شہادت

[ترمیم]

ایک روز شام کے وقت جب آفتاب غروب ہو رہا تھا اور جنگ پورے زور کے ساتھ جاری تھی، حضرت عمارؓ بن یاسر دودھ کے چند گھونٹ حلق سے فرو کرکے بولے " رسول خدا نے مجھ سے فرمایا ہے کہ دودھ کا یہ گھونٹ تیرے لیے دنیا کا آخری توشہ ہے" اور کہتے ہوئے غنیم کی صف میں گھس گئے کہ آج میں اپنے دوستوں سے ملوں گا، آج میں محمد اور ان کے گروہ سے ملوں گا۔[38] کچھ ایسے عزم واستقلال سے حملہ آور ہوئے تھے جس طرف نکل گئے پرے کا پرا صاف ہو گیا اور جس پر وار کیا ڈھیر ہوکر رہ گیا، واقف کار مسلمان ان پر ہاتھ اٹھانے سے پہلو بچاتے تھے، لیکن اسی حالت میں ابن الغادیہ کے نیزہ نے ان کو مجروح کرکے زمین پر گرا دیا اور ایک دوسرے شامی نے بڑھ کر سرتن سے جدا کر دیا، یہ دونوں قاتل جھگڑتے ہوئے امیر معاویہ ؓ کے دربار میں پہنچے ، کیونکہ ان میں کا ہر ایک اس کارنامہ کو اپنی طرف منسوب کرتا تھا،عمرو بن العاص ؓ حاضرِ دربار تھے، انھوں نے کہا"خدا کی قسم یہ دونوں جہنم کے لیے جھگڑ رہے ہیں" امیر معاویہ ؓ نے برہم ہو کر کہا عمرو ! تمھاری یہ کیا حالت ہے؟ جو لوگ ہمارے لیے اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں، ان کو ایسا کہتے ہو، بولے خدا کی قسم ایسا ہی ہے، کاش آج سے بیس برس پہلے مجھے موت آگئی ہوتی۔[39]

حضرت عمرو بن العاص ؓ کو حضرت عمار بن یاسرؓ کی شہادت سے سخت پریشانی لاحق ہوئی اور اس جنگ سے کنارہ کش ہونے کے لیے تیار ہو گئے، لیکن حضرت امیر معاویہ ؓ نے یہ کہہ کر تسلی دی کہ عمارؓ کے قاتل ہم نہیں ہیں ؛بلکہ وہ جماعت ہے جو ان کو میدان جنگ میں لائی۔[40]

حضرت عمار بن یاسر ؓ کی شہادت سے درحقیقت حق و ناحق کا فیصلہ ہو گیا ، حضرت خزیمہ بن ثابت ؓ جنگ جمل اور معرکۂ صفین میں شریک تھے، لیکن اس وقت تک کسی طرف سے اپنی تلوار بے نیام نہیں کی تھی، حضرت عمارؓ بن یاسر کی شہادت نے ثابت کر دیا کہ انھیں حیدر کرار ؓ کا ساتھ دینا چاہیے؛ چنانچہ اس کے بعد تلوار کھینچ کر شامی فوج پر ٹوٹ پڑے اور شدید کشت وخون کے بعد شہادت حاصل کی۔[41]

آپ کی شہادت جنگِ صفین میں ہوئی جس میں آپ علی ابن ابی طالب کی طرف سے شریک تھے۔ یہ 9 صفر 37ھ تھی اور ان کی عمر اس وقت 93 برس تھی۔ بعض نے 91 اور بعض نے 92 سال ذکر کیا ہے۔۔[42]عمار بن یاسر بن عامر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد علی بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔[43]

تجہیز و تکفین

[ترمیم]

حضرت علی بن ابی طالب ؓ نے جب اپنے مونس و جانثار کی شہادت کی خبر سنی تو آہ سرد کھینچ کر فرمایا، "خدا نے عمارؓ بن یاسر پر رحم کیا، جس دن اسلام لائے، خدا نے رحم کیا، جس دن شہید ہوئے اور خدا ان پر رحم کرے گا۔ جس دن زندہ اٹھائے جائیں گے، میں نے ان کو اس وقت رسول اللہ کے ساتھ دیکھا تھا جب کہ صرف چار یا پانچ صحابہ ؓ کو اعلانِ ایمان کی توفیق عطا ہوئی تھی، قدیم صحابہ ؓ میں سے کوئی بھی ان کی مغفرت میں شک نہیں کرسکتا، عمارؓ اور حق لازم و ملزوم تھے ، اس لیے ان کا قاتل یقیناً جہنمی ہوگا ، اس کے بعد تجہیز و تکفین کا حکم دیا، [44]

اخلاق

[ترمیم]

حضرت عمارؓ بن یاسر کا معدنِ اخلاق گراں مایہ جواہر سے لبریز تھا، جفاکشی، استقامت، استقلال اور حقانیت کے واقعات پہلے گذر چکے ہیں، ورع وتقویٰ کے باعث سکوت وکم سخنی ان کا خاص شعار تھا، فتنہ وفساد سے ہمیشہ پناہ مانگا کرتے تھے، لیکن خدانے سب سے بڑے فتنہ میں ان کا امتحان لیا اور کامیابی کے ساتھ حق کا طرف دار بنادیا۔[45]

سادگی، تواضع اور خاکساری کا یہ حال تھا کہ فرشِ خاک ان کے لیے سب سے زیادہ راحت بخش بستر تھا ، غزوۂ ذات العشیرہ کے موقع میں بنی مدلج کے چند آدمی ایک نخلستان سے نہر نکال رہے تھے، حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے ان سے فرمایا "ابوالیقظان چلو دیکھیں یہ لوگ کیا کر رہے ہیں" غرض وہاں پہنچ کر گھنٹوں تماشا دیکھتے رہے، یہاں تک کہ نیند کا غلبہ ہوا اور دونوں اسی جگہ ایک درخت کے نیچے فرش خاک پر بے تکلفی کے ساتھ سو رہے۔[46]

عہدِ فاروقی میں کوفہ کے والی تھے، لیکن ایک گورنر کی سادگی و بے تکلفی یہ تھی کہ خود بازار جاکر سودا سلف خرید تے، حضرت مطرف ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ کوفہ میں، میں اپنے ایک دوست سے ملنے گیا، اثنائے گفتگو میں حضرت علی ؓ کی بعض بے اعتدالیوں کا تذکرہ آیا تو ایک شخص نے جو وہاں بیٹھا ہوا اپنے چرمی پیراہن میں پیوندٹانک رہا تھا، برہم ہوکر کہا، اے فاسق کیا تو امیر المومنین کی مذمت کررہا ہے؟ میرے دوست نے عفو خواہی کرکے کہا ابوالیقظان !جانے دو یہ میرے مہمان ہیں، اس وقت میں نے پہچانا کہ عمار ؓ بن یاسر ؓ یہی ہیں۔[47]

حضرت عمارؓ بن یاسر کا ہر ایک قدم صرف خدائے پاک کی خوشنودی و رضا مندی کی راہ میں اٹھتا تھا ، جنگ جمل اور غزوۂ صفین میں بھی درحقیقت اسی مطمحِ نظر نے حضرت علی ؓ کے زیر علم لاکر کھڑا کیا ، صفین کی فوج کشی میں ساحلِ فرات کی راہ سے میدانِ جنگ کی طرف بڑھ رہے تھے اور بار بار کہتے جاتے تھے، اے خدا ! اگر میں جانتا کہ پہاڑ سے کود کر آگ میں جل کر یا پانی میں ڈوب کر جان دینا تیری خوشنودی کا باعث ہوگا تو ضرور تجھے خوش کرتا میں لڑنے جاتا ہوں، لیکن اس میں بھی تیری رضا جوئی مقصود ہے، امید ہے کہ اس مقصد میں تو مجھے ناکام نہ رکھے گا۔[48] آپ کی اخلاقی عظمت اور قوتِ ایمانی کا ضامن خود آنحضرت کا یہ قول کہ"عمار ؓ کے رگ وپے میں ایمان سرایت کیے ہوئے ہے" اور شیطان سے مامون رہنے کی دعا ہے۔[49]

مذہبی زندگی

[ترمیم]

حضرت عمارؓ بن یاسر کو خدائے واحد کی عبادت و پرستش میں خاص لطف حاصل ہوتا تھا رات رات بھر نماز اور وظائف میں مشغول رہتے تھے، حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ یہ آیت :

أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ کیا وہ شخص جو رات کو بندگی کرتا ہے سجدہ کرکے اورکھڑا ہوکر آخرت سے خوف کھاتا ہے اور اپنے خدا کی رحمت کا امیدوار رہتا ہے( کہیں نافرمان بندوں کے برابر ہو سکتا ہے)

حضرت عمار بن یاسر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ہی کی نسبت نازل ہوئی ہے، [50]

خشوع و خضوع اور توجہ الی اللہ کو نماز کی اصل روح سمجھتے تھے، ایک دفعہ نماز پڑھنے کھڑے ہوئے تو جلدی جلدی دوگانہ ادا کرکے بیٹھ رہے، لوگوں نے پوچھا کہ آپ نے اس قدر عجلت کیوں کی؟ بولے اس وقت مجھے شیطان سے مسابقت کرنا پڑی، [51] معذوری کی حالت میں نماز قضا نہیں ہوتی تھی، ایک مرتبہ سفر کے موقع پر غسل کی حاجت پیش آئی اور باوجود سعی و کوشش پانی دستیاب نہ ہوا ، چونکہ جانتے تھے کہ مٹی پانی کا نعم البدل ہے، اس لیے تمام جسم پر خاک مل کر نماز پڑھ لی، جب سفر سے واپس آئے اور آنحضرت سے اس کا تذکرہ کیا تو ارشاد ہوا، " ایسی حالت میں بھی صرف تیمم کافی ہے"۔[52]

جمعہ کے روز خطبہ سے پہلے منبر پر بیٹھ کر عموماً سورۂ یٰسین تلاوت فرماتے تھے، [53] خطبہ نہایت فصیح و بلیغ ہوتا تھا اور اس میں ایجاز واختصار خاص طور پر ملحوظ رکھتے تھے، ایک دفعہ کسی نے اس اختصار پر اعتراض کیا تو بولے کہ "رسول اللہ فرمایا کرتے تھے کہ نماز کو طول دینا اور خطبہ مختصر کرنا انسان کی سمجھ کی علامت ہے۔[54]

حلیہ

[ترمیم]

حلیہ یہ تھا، قد بلند وبالا ، نرگس آنکھیں ، سینہ چوڑا اور بدن خوب بھرا ہوا، شہادت کے وقت گو ان کی عمر نوے اکانوے برس کی تھی تاہم بظاہر پیری کے آثار بہت کم طاری ہوئے تھے۔[55]

مزار پر حملہ

[ترمیم]

21 رمضان 1434ھ شب قدر کے ایام میں شدت پسند گروہ نے شام میں صوبہ رقہ پر قبضہ کیا اور عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ اور اویس قرنی کے مزار پر بذریعہ راکٹ حملہ کیا جو مزار کے صحن میں جا لگا جس کے نتیجے مزار کی دیواریں منہدم ہوئیں۔[56]

24 جمادی الاول 1435ھ کو ایک بار پھر شدت پسند گروہ داعش نے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ اور اویس القرنی کے حرم کے میناروں کو بم سے اڑا دیا۔ داعش نے دوسرے مرحلے میں 15 رجب 1438ھ کو اس مزار کو خراب کر دیا۔[57]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. ^ ا ب پ عنوان : Аммар ибн Йасир
  2. صحیح مسلم، حدیث 6966 سے لے کر 6970
  3. (ابن سعد قسم اول جز ثالث : 177)
  4. (اصابہ تذکرہ سمیہ ؓ ام عمارہ ؓ)
  5. (مستدرک حاکم:3/ 388)
  6. (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث :178)
  7. (اسدالغابہ تذکرہ عمار بن یاسر ؓ)
  8. (طبقات ابن سعد قسم اول جزوثالث : 177)
  9. مسند احمد ج6 ص295
  10. (طبقات ابن سعد قسم اول جزوثالث : 1177)
  11. (بخاری باب فضائل الصدیق ؓ)
  12. (فتح الباری:7/ 17 واسد الغابہ:4/44)
  13. (ابن سعد قسم اول جز ثالث : 177)
  14. (اصابہ تذکرہ سمیہ ؓ ام عمارہ ؓ)
  15. (مستدرک حاکم:3/ 388)
  16. (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث :178)
  17. (نحل:106)
  18. (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث :178)
  19. (اسدالغابہ تذکرہ عمار ؓ)
  20. (ابن سعد قسم اول جز ثالث : 177)
  21. (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث :179)
  22. (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث : 179)
  23. (مستدرک حاکم:3/387)
  24. (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث:181)
  25. (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث:181)
  26. (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث :182)
  27. (تاریخ طبری :2676)
  28. (تاریخ طبری :7677)
  29. (ابن سعد قسم اول جز ثالث :183)
  30. (تاریخ طبری:2943)
  31. (استیعاب :2/434)
  32. ( طبری)
  33. (اخبار الطوال :146)
  34. (مسند احمد بن حنبل :4/265)
  35. (اخبار الطوال :147)
  36. (اخبار الطوال:49)
  37. (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث:185)
  38. (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث :184)
  39. (طبقات ابن سعد قسم اول جزوثالث : 185)
  40. (طبقات ابن سعد قسم اول جزوثالث :180، ومستدرک وحاکم:3/387)
  41. (طبقات ابن سعد قسم اول جزو ثالث:187)
  42. ابن عبد البر، الاستعیاب فی معرفۃ الاصحاب، 1415، جلد 3، صفحہ 231۔
  43. ابن سعد، الطبقات الکبری، بیروت، جلد 3، صفحہ 262.
  44. (طبقات ابن سعد قسم اول جزوثالث:187)
  45. (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث:183)
  46. (مسند احمد بن حنبل :4/263)
  47. (طبقات ابن سعد قسم اول جزوثالث :182)
  48. (طبقات ابن سعد قسم اول جزوثالث : 184)
  49. (مستدرک حاکم:3/393)
  50. (مستدرک حاکم :3/393)
  51. (مسند احمد بن حنبل :4/263)
  52. (مسند احمد بن حنبل :4/263)
  53. (طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث :182)
  54. (مسند احمد بن حنبل :4/263)
  55. (طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث :189)
  56. داعش نے عمار بن یاسر اور اویس القرنی کے مزارات کو منہدم کر دیا۔ خبرگزاری مشرق۔
  57. "شام میں عمار یاسر کا مزار خراب کر دیا گیا خبرگزاری حج و زیارت۔"۔ 23 مئی 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 جون 2017 

سانچے

[ترمیم]