مندرجات کا رخ کریں

عبد اللہ بن عمر

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عبد اللہ بن عمر
(عربی میں: عبد الله بن عمر ابن الخطاب ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 610ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ [1]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 693ء (82–83 سال)[2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت خلافت راشدہ
سلطنت امویہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
زوجہ صفیہ بنت ابی عبید [3]  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد سالم بن عبد اللہ ،  حمزہ بن عبداللہ بن عمر بن خطاب ،  عبداللہ بن عبداللہ بن عمر بن خطاب ،  بلال بن عبد اللہ بن عمر بن خطاب ،  واقد بن عبداللہ بن عمر بن خطاب ،  عبید اللہ بن عبد اللہ بن عمر بن خطاب ،  زید بن عبد اللہ بن عمر بن خطاب   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والد عمر ابن الخطاب [1]  ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
والدہ زینب بنت مظعون   ویکی ڈیٹا پر (P25) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
عملی زندگی
نمایاں شاگرد نافع مولی ابن عمر ،  طاؤس بن کیسان ،  بکیر بن الاخنس السدوسی ،  محمد بن سیرین ،  ابراہیم بن ابی عبلہ   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ عسکری قائد ،  محدث ،  مفسر قرآن ،  مفتی   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
لڑائیاں اور جنگیں غزوۂ بدر ،  غزوہ احد ،  غزوہ خندق ،  جنگ موتہ ،  غزوہ تبوک ،  فتح مکہ   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں


عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (10ق.ھ / 74ھ)یہ امیر المؤمنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرزند ارجمند ہیں۔ ان کی والدہ کا نام زینب بنت مظعون ہے۔یہ بچپن ہی میں اپنے والد ماجد کے ساتھ مشرف بہ اسلام ہوئے ۔ یہ علم و فضل کے ساتھ بہت ہی عبادت گزار اور متقی وپرہیز گار تھے ۔ میمون بن مہران تابعی کا فرمان ہے کہ میں نے عبد اللہ بن عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے بڑھ کر کسی کو متقی وپرہیز گار نہیں دیکھا۔ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمانوں کے امام ہیں۔ یہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات اقدس کے بعد ساٹھ(60) برس تک حج کے مجمعوں اور دوسرے مواقع پر مسلمانوں کو اسلامی احکام کے بارے میں فتویٰ دیتے رہے۔ مزاج میں بہت زیادہ سخاوت کا غلبہ تھا اور بہت زیادہ صدقہ وخیرات کی عادت تھی۔اپنی جو چیز پسند آجاتی تھی فوراً ہی اس کو راہ خدا عزوجل میں خیرات کردیتے تھے ۔ آپ نے اپنی زندگی میں ایک ہزار غلاموں کو خرید خرید کر آزاد فرمایا ۔ جنگ خندق اور اس کے بعد کی اسلامی لڑائیوں میں برابر کفار سے جنگ کرتے رہے ۔ ہاں البتہ حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے درمیان جو لڑائیاں ہوئیں آپ ان لڑائیوں میں غیر جانبدار رہے۔ عبد الملک بن مروان کی حکومت کے دوران حجاج بن یوسف ثقفی امیر الحج بن کر آیا۔ آپ نے خطبہ کے درمیان اس کو ٹوک دیا۔حجاج ظالم نے جل بھن کر اپنے ایک سپاہی کو حکم دے دیا کہ وہ زہر میں بجھایا ہوا نیزہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاؤں میں مار دے چنانچہ اس مردود نے آپ کے پاؤں میں نیزہ مار دیا۔ زہر کے اثر سے آپ کا پاؤں بہت زیادہ پھول گیا اور آپ علیل ہو کر صاحب فراش ہو گئے۔ مکار حجاج بن یوسف آپ کی عیادت کے لیے آیا اور کہنے لگا کہ حضرت !کاش! مجھے معلوم ہو جاتا کہ کس نے آپ کو نیزہ مارا ہے ؟آپ نے فرمایا :اس کو جان کر پھر تم کیا کرو گے؟ حجاج بن یوسف نے کہا کہ اگر میں اس کو قتل نہ کروں تو خدا مجھے مار ڈالے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تم کبھی ہرگز ہرگز اس کو قتل نہیں کروگے اس نے تو تمھارے حکم ہی سے ایسا کیا ہے۔ یہ سن کر حجاج بن یوسف کہنے لگا کہ نہیں نہیں ، اے ابو عبد الرحمن! آپ ہرگز ہرگز یہ خیال نہ کریں اور جلدی سے اٹھ کر چل دیا۔ اسی مرض میں 74ھ میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے تین ماہ بعد حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ چوراسی یا چھیاسی برس کی عمر پا کر وفات پا گئے اور مکہ معظمہ میں مقام ”محصب” یا مقام ”ذی طویٰ”میں مدفون ہوئے ۔ [4][5]

نام و نسب

[ترمیم]

عبد اللہ نام ، ابوعبدالرحمن کنیت ، آبائی سلسلہ نسب یہ ہے، عبد اللہ بن عمر بن خطاب ابن نفیل بن عبدالعزی بن رباح بن قرط بن زراح بن عدی بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر ، ماں کا نام زینب تھا، نانہالی نسب نامہ یہ ہے، زینب بنت مظعون بن حبیب بن وہب بن حذافہ بن حمح بن عمرو بن حصین۔ [5][6]

ولادت

[ترمیم]

یہ صحیح روایت سے ثابت ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ غزوۂ احد میں جو میں پیش آیا ،چودہ برس کے تھے،اس حساب سے ان کی پیدائش کا تخمینی زمانہ بعثت کا دوسرا سال ہے اور 6 نبوی میں جب حضرت عمرؓ مشرف بہ اسلام ہوئے تو عبد اللہ ابن عمر کا سن تقریبا ًپانچ برس کا ہوگا۔ [5][7][8]

اسلام

[ترمیم]

حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے ہوش سنبھالا ہی تھا کہ اپنے گھر کے در و دیوار پر اسلام کو پر تو فگن دیکھا اور اسلام ہی کے دامن مکیں ان کی نشو و نما ہوئی، بعض روایتوں میں ہے کہ وہ اپنے والد بزرگوار سے پہلے مشرف باسلام ہوئے تھے مگر صحیح یہ ہے کہ انھوں نے اپنے والد بزرگوار کے ساتھ اس طرح اسلام قبول کیا تھا جس طرح خاندان کے بڑے بزرگ کے تبدیل مذہب کے گھر کے کمسن بچے بھی غیر شعوری طور سے اپنے مذہب کو بدل ڈالتے ہیں،جن غیر معتبر راویوں نے حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ کے اسلام کا واقعہ نقل کیا ہے ،درحقیقت ان کو بیعتِ رضوان کے واقعہ کے ساتھ التباس ہوا ہے، صحیح بخاری میں خود حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ کی زبانی منقول ہے کہ جب میرے باپ مسلمان ہوئے تو میں چھوٹا بچہ تھا،[9] ظاہر ہے کہ ایک چھوٹا بچہ حق وباطل کی تمیز کی وہ دقتِ نگاہ نہیں رکھتا،جو اس زمانہ میں اس کو کسی مذہب کے بذات خود ردو قبول پر آمادہ کرسکے۔ [10]

ہجرت

[ترمیم]

انوار اسلام کی چمک کے ساتھ ساتھ مشرکین کے ظلم و طغیان کی گرج بھی برابر بڑھتی گئی اور حضرت عمرؓ بن خطاب اور ان کا خاندان بھی ان کی ستم کیشیوں سے محفوظ نہ رہا، اس لیے حضرت عمرؓ بن خطاب نے بھی اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہجرت کی۔ [5]

غزوہ بدر

[ترمیم]

ہجرت کے بعد حق و باطل کی پہلی آویزش غزوۂ بدر ہے، اس وقت عبد اللہ ابن عمرؓ کی عمر کل 13 سال کی تھی، تاہم جانبازی کے شوق میں شرکت کی درخواست کی،صغیر السن ہونے کی وجہ سے آنحضرت نے قبول نہ فرمائی۔ [11] [8]

غزوہ احد

[ترمیم]

اس کے ایک سال بعد، دوسرا معرکہ احد میں ہوا، اس میں بھی انھوں نے اپنا نام پیش کیا ، مگر چونکہ چودہ سال سے متجاوز نہیں ہوئے تھے، اس لیے اس مرتبہ بھی ان کی درخواست مسترد ہو گئی۔ [12]

غزوہ خندق

[ترمیم]

غزوہ احد کے دو سال بعد غزوۂ خندق میں ان کی عمر پندرہ سال پوری ہو چکی تھی؛ چنانچہ یہی وہ سب سے پہلا معرکہ ہے جس میں ان کو سرکار رسالت سے شرکت کی اجازت ملی۔ [13]

بیعت رضوان

[ترمیم]

میں صلح حدیبیہ کے موقع پر آنحضرت کے ہم رکاب ہوئے اور بیعت رضوان کا بھی شرف حاصل کیا اور حسنِ اتفاق یہ کہ یہ شرف اپنے پدر عالی قدر سے پہلے حاصل کیا،اس کی صورت یہ پیش آئی کہ صلح حدیبیہ کے دن حضرت عمرؓ بن خطاب نے عبد اللہ بن عمر کو ایک انصاری کے پاس گھوڑا لانے کے لیے بھیجا تھا کہ جہاد میں وہ اس پر سوار ہوسکیں، حضرت عبد اللہ بن عمر باہر نکلے تو معلوم ہوا کہ آنحضرت صحابہؓ سے بیعت لے رہے ہیں،چنانچہ انھوں نے پہنچ کر پہلے خود بیعت کی اور اس کے بعد گھوڑا لے کر گئے اور حضرت عمرؓ بن خطاب کو اس کی اطلاع دی، انھوں نے بھی جاکر بیعت کا شرف حاصل کیا۔ [14] [8][15]

غزوہ خیبر

[ترمیم]

اس کے بعد غزوۂ خیبر میں بھی وہ مجاہدانہ شریک ہوئے اور اس سفر میں آنحضرت نے حلال وحرام کے جو بعض خاص احکام جاری فرمائے وہ ان کے راوی ہیں۔ [16]

فتح مکہ

[ترمیم]

قریش اور اسلام کی فتح و شکست کا آخری معرکہ فتح مکہ تھا،اس وقت حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر 20 سال کی تھی، پورے جوان ہو چکے تھے اور ایک سرفروش مجاہد کی حیثیت سے دوسرے مجاہدین کے دوش بدوش تھے،سامان ِجنگ میں ایک تیز رفتار گھوڑا اور ایک بھاری نیزہ تھا جسم پر ایک چھوٹی سی چادر تھی اور خود اپنے ہاتھ سے گھوڑے کے لیے گھاس کاٹ رہے تھے اس حالت میں آنحضرت کی نظر پڑی تو تعریف کے لہجہ میں فرمایا کہ عبد اللہ ہے عبد اللہ ، فتح کے بعد خانہ کعبہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے پیچھے داخل ہوئے ، چنانچہ ان کا بیان ہے کہ آنحضرت ﷺ اونٹ پر سوار مکہ کے بالائی حصہ کی طرف سے داخل ہوئے تھے اسامہ بن زید ؓ ان کے ساتھ سوار تھے، عثمان بن طلحہ ؓ اور بلال ؓ جلو میں تھے، خانہ کعبہ کے صحن میں اونٹ بٹھاکر کنجیاں منگائیں اور کعبہ کھول کر تینوں ایک ساتھ داخل ہوئے، ان لوگوں کے بعد سب سے پہلا داخل ہونے والا میں تھا۔ [17] [10][18]

غزوہ حنین

[ترمیم]

فتح مکہ کے بعد غزوۂ حنین میں بھی صف آرا تھے، چنانچہ حنین کی واپسی کے بعد کے واقعات کے سلسلہ میں کہتے ہیں کہ جب ہم غزوۂ حنین سے لوٹے تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اعتکاف کی نذر کے متعلق پوچھا جو جاہلیت کے زمانہ میں مانی تھی، آنحضرت نے اُس کے پورا کرنے کا حکم دیا۔ [19] [6]

محاصرہ طائف

[ترمیم]

اس کے بعد طائف کا محاصرہ ہوا، اس محاصرہ میں بھی عبد اللہ ابن عمرؓ پیش پیش تھے، چنانچہ اس محاصرہ کے واقعات بیان کرتے تھے کہ جب محاصرہ میں مسلمانوں کو کامیابی نہ ہوئی تو آنحضرت نے فرمایا کہ انشا اللہ کل محاصرہ اٹھا کر واپس ہو جائیں گے، یہ ارشاد لوگوں پر گراں گذرا انھوں نے عرض کیا، کیا بغیر فتح کیے ہوئے لوٹ چلیں؟ آپ نے فرمایا اچھا کل پھڑ لڑلو، چنانچہ دوسرے دن لڑے اور فتح کی بجائے الٹے زخمی ہوئے، آپ نے پھر فرمایا کہ انشاء اللہ کل واپس جائں گے، اس مرتبہ لوگوں نے بخوشی منظور کر لیا، اس پر آپ مسکرا دیے۔ [20]

حجتہ الوداع

[ترمیم]

حجتہ الوداع آنحضرت کا آخری حج تھا، اس میں مسلمانوں کا جم غفیر آپ کے ہمرکاب تھا، حضرت ابن عمرؓ بھی اس شرف میں شریک تھے، چنانچہ حجۃ الوداع کے واقعات میں ان کا بیان ہے کہ حجۃ الوداع میں آنحضرت اور بعض صحابہؓ نے بال منڈائے تھے اور بعضوں نے صرف ترشوانے پر اکتفا کی تھی۔ [21] [22]

غزوہ تبوک

[ترمیم]

میں غزوۂ تبوک پیش آیا، اس میں آنحضرت ﷺ نے 30 ہزار کی جمعیت کے ساتھ رومیوں کے مقابلہ کے لیے تبوک کا رخ کیا تھا، حضرت ابن عمرؓ اس میں بھی شریک تھے، چنانچہ فرماتے ہیں کہ جب آنحضرت حجر ،(قدیم اقوام عادوثمود کی آبادیاں) کی طرف گذرے تو فرمایا ان لوگوں کے مسکن میں داخل نہ ہو جنھوں نے (خدا کی نافرمانی کرکے) اپنے اوپر ظلم کیا کہ مباداتم بھی اس عذاب میں مبتلا نہ ہوجاؤ جس میں وہ مبتلا ہوئے، اگر گذرنا ہے توخشیت الہی سے روتے ہوئے گذرجاؤ۔ [23] غرض غزوۂ خندق سے لے کر آخر تک آنحضرت کی زندگی میں کوئی ایسی بڑی مہم نہ تھی جس میں انھوں نے شرکت کی عزت حاصل نہ کی ہو۔ [24]

عہد صدیقی

[ترمیم]

عبد اللہ ابن عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ عہد صدیقی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ میں کہیں نہیں نظر آتے۔ [25]

عہد فاروقی

[ترمیم]

البتہ عہد فاروقی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے بعض فتوحات میں شریک رہے، لیکن محض ایک سر فروش مجاہد کی حیثیت سے نافع کا بیان ہے کہ جب عبد اللہ ابن عمرؓ نہاوند کی جنگ میں شریک ہوئے اور بیمار پڑ گئے تو پیاز کو تاگے میں پرو کر دوامیں پکاتے تھے، جب اس میں پیاز کا مزہ آجاتا تھا تو اس کو نکال کے دواپی لیتے تھے، [26] شام اورمصر کی فتوحات میں بھی شرکت کا پتہ چلتا ہے؛ لیکن ان فتوحات میں ان کا کوئی نمایاں کارنامہ نہیں ہے اور اس زمانہ میں سلطنت کے انتظامی امور میں بھی انھوں نے کوئی حصہ نہیں لیا، غالبا اس کا سبب یہ ہے کہ حضرت عمر اپنے عزیزوں کو اس میں پڑنے نہ دیتے تھے، تاہم جہاں امت کے نفع ونقصان کا کوئی سوال پیش آجاتا تو حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ اپنے والد بزرگوار کی سخت گیری کے خطرہ کو برداشت بھی کرلیتے تھے،چنانچہ جب حضرت عمرؓ کا وقت آخر ہوا اور ابن عمرؓ کو اپنی بہن ام المومنین حفصہ ؓ کی زبانی معلوم ہوا کہ حضرت عمرؓ کسی کو اپنا جانشین نامزد کرنے کا خیال نہیں رکھتے جس سے ان کے خیال میں آئندہ مشکلات پیش آنے کا خطرہ تھا تو ڈرتے ڈرتے باپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ان کا بیان ہے کہ میں جرأت تو کر گیا مگر مارے خوف کے معلوم ہوتا تھا کہ پہاڑ اٹھا رہا ہوں، میں پہنچا تو پہلے حضرت عمرؓ لوگوں کے حالات پوچھتے رہے، پھر میں نے جرأت کرکے عرض کیا کہ میں لوگوں کی چہ میگوئیاں گوش گزار کرنے حاضر ہوا ہوں ان کا خیال ہے کہ آپ کسی کو اپنا جانشین منتخب نہ فرمائیں گے، فرض کیجئے کہ وہ چرواہا جو آپ کی بکریوں اور اونٹوں کو چراتا ہے،اگر گلہ کو چھوڑ کر آپ کے پاس چلاجائے تو شرکاء کا کیا حشر ہو گا؟ ایسی حالت میں انسانوں کی گلہ بانی کا فرض تو اس سے کہیں بڑھ کر ہے، حضرت عمرؓ بن خطاب نے اس معقول استدلال کو پسند کیا،پھر کچھ سوچ کر بولے خدا خود اپنے گلہ کا نگہبان ہے اگر میں کسی کو اپنا جانشین نامزد نہ کروں تو کوئی مضائقہ نہیں کہ رسول اللہ نے بھی نامزد نہیں فرمایا تھا اور اگر کر جاؤں تو بھی کوئی حرج نہیں کہ ابوبکرؓ صدیق رضی اللہ عنہ نامزد کرگئے تھے، عبد اللہ ابن عمرؓ کابیان ہے کہ جب حضرت عمرؓ بن خطاب نے رسول اللہ اور ابوبکرؓ صدیق کا نام لیا تو میں سمجھ گیا کہ وہ آنحضرت کے اسوۂ حسنہ پر کسی کو ترجیح نہ دیں گے اورکسی کو اپنا جانشین خود نہ بنا جائیں گے، [27]چنانچہ انھوں نے اپنے بعد اپنی جانشینی کا مسئلہ مسلمانوں کی ایک جماعت کے سپرد کر دیا، جس میں متعدد اکابر صحابہ شامل تھے۔ [28]

عہد عثمانی

[ترمیم]

عبد اللہ ابن عمرؓ اپنے والد بزرگوار کی وفات کے بعد سب سے پہلے انتخاب خلیفہ کی مجلس شوریٰ میں نظر آتے ہیں، کیونکہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وصیت فرمائی تھی کہ خلیفہ کے انتخاب میں عبد اللہ بحیثیث مشیر شریک ہوں،مگر صرف مشورہ دے سکتے ہیں خلیفہ نہیں نامزد کیے جا سکتے ۔ [29]

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں ان کو ملکی معاملات میں حصہ لینے کا موقع ملا، مگر انھوں نے اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا، حضرت عثمان بن عفان ؓ نے قضاء کا عہدہ پیش کیا،انھوں نے معذرت کردی کہ میں نہ دوشخصوں کے درمیان فیصلہ کرتا ہوں اور نہ دو شخصوں کی امامت کرتا ہوں؛کیونکہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ قاضی تین قسم کے ہوتے ہیں،ایک جاہل جس کا ٹھکانا دوزخ ہے دوسرا عالم مائل الی الدنیا، اس کا مستقر بھی دوزخ ہے، تیسرا جو اجتہاد کرتا ہے اور صحیح رائے قائم کرتا ہے اس کے لیے نہ عذاب ہے نہ ثواب،حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تمھارے باپ تو فیصلے کرتے تھے ،بولے یہ صحیح ہے ؛لیکن جب ان کو کسی پیچیدہ بات میں دشواری پیش آتی تھی تو آنحضرت کی طرف رجوع کرتے تھے اور جب آنحضرت ﷺ کو دشواری ہوتی تھی تو جبرئیل سے دریافت فرماتے تھے میں کس کی طرف رجوع کروں گا، کیا آپ نے آنحضرت سے نہیں سنا جس نے خدا کی پناہ مانگی اس نے پناہ کی جگہ پناہ مانگی،اس لیے خدارا مجھ کو کہیں کا عامل نہ بنائیے، ان کے انکار پرحضرت عثمانؓ بن عفان نے زیادہ اصرار نہیں کیا، البتہ یہ عہد لے لیا کہ اس کا تذکرہ کسی سے نہ کرنا۔ [30]

مگر ملکی انتظام سے اس کنارہ کشی کے باوجود جہاد فی سبیل اللہ میں برابر شریک ہوتے رہے چنانچہ27ھ میں، افریقہ،اتونس، الجزائر، مراکش، کی مہم میں شریک ہوئے،[31] پھر 30ھ میں خراساں اور طبرستان کے معرکوں میں حضرت سعید بن عاصؓ کے ساتھ رہے، [32]جب فتنہ وفساد شروع ہوا تو بالکل کنارہ کش ہو گئے اور پھر کسی چیز میں حصہ نہیں لیا، اسی احتیاط کی بنا پر خلافت کے اعزاز سے بھی انکار کر دیا، حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد لوگوں نے آپ سے درخواست کی کہ آپ امیر ابن امیر ہیں ہم سب آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو آمادہ ہیں فرمایا، جہاں تک میرے امکان میں ہے اپنے لیے ایک پچھنے کے برابر بھی خون نہ بہنے دوں گا، لوگوں نے دھمکی دی کہ اگر آپ اس بار گراں کو نہیں سنبھالتے تو ہم آپ کو قتل کر دیں گے؛ لیکن انھوں نے اس دھکمی کی بھی مطلق پروا نہ کی اور خلافت جیسے رفیع اعزاز سے جو اس وقت فتنوں کا مرکز بن گیا تھا اپنے کو بچا ئے رکھا۔ [33]

البتہ اس بارے میں اختلاف ہے کہ عبد اللہ ابن عمرؓ نے حضرت علیؓ اورامیر معاویہ ؓ میں سے کس کی خلافت تسلیم کی، ابن حجر کا بیان ہے کہ چونکہ حضرت علیؓ کی خلافت کے بارہ میں مسلمانوں کا اختلاف تھا اس لیے ابن عمرؓ نے ان کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی،کیونکہ ان کی رائے تھی کہ جب تک کسی شخص پر لوگوں کا اجماع نہ ہو جائے اس وقت تک اس کے ہاتھ پر بیعت نہ کرنی چاہیے۔ [34] لیکن مستدرک نے غسان بن عبد الحمید کی روایت نقل کی ہے کہ ابن عمرؓ نے اس شرط پر حضرت علیؓ کے ہاتھ پر بیعت کرلی تھی کہ وہ ان کے ساتھ خانہ جنگی میں نہ شریک ہوں گے اور جناب امیر نے ان کو اس کی اجازت بھی دے دی تھی، [35] ہمارے نزدیک مستدرک کی روایت زیادہ صحیح اور قریب قیاس ہے ؛کیونکہ ابن حجر نے جس اصول کی بنا پر عبد اللہ ابن عمرؓ کا حضرت علیؓ کی خلافت سے دست کش ہونا بتایا ہے، اس سے ہمارے خیال کی تائید ہوتی ہے، گو حضرت علیؓ بن ابی طالب کی خلافت پر تمام مسلمانوں کا اتفاق نہیں ہوا تھا ،تاہم اسلام کے ارباب حل وعقد یعنی مہاجرین وانصار کی اکثریت حضرت علیؓ کے ساتھ تھی اور ان کی نہایت ہی مختصر جماعت آپ سے الگ رہی،البتہ یہ مسلم ہے کہ انھوں نے جنگ جمل اور صفین میں کسی کا ساتھ نہیں دیا اور ان کے ہاتھ سے کسی مسلمان کا ایک قطرہ خون نہیں گرا؛ لیکن ضمیر حق پرست تھا اس لیے جنگ میں حضرت علیؓ کا ساتھ نہ دینے پر آخر دم تک متاسف رہے، فرماتے تھے کہ گو میں نے اپنا ہاتھ آگے نہیں بڑھایا، لیکن حق پر مقاتلہ افضل ہے۔ [36]

جنگ صفین کے بعد جب ابو موسیٰ اشعریؓ اور حضرت عمرو بن العاصؓ کو حکم بنایا گیا تو ابو موسیٰ ؓ نے خلافت کے لیے عبد اللہ ابن عمرؓ کا نام پیش کیا تھا، [37] مگر عمرو بن العاصؓ نے اس سے اختلاف کیا، حکم کے فیصلہ سناتے وقت آپ بھی عام مسلمانوں کے ساتھ امت مسلمہ کی قسمت کا فیصلہ سننے کے لیے دومتہ الجندل آئے تھے۔ ان واقعات کے بعد مسلمانوں میں دو نئے فرقے پیدا ہو گئے تھے، ایک وہ جو حضرت علیؓ کو برا سمجھتا تھا،دوسرا وہ جو حضرت عثمانؓ کی برائیاں بیان کرتا تھا کہ وہ احد میں بھاگ کھڑے ہوئے تھے، اس بارہ میں حضرت ابن عمرؓ کی رائے پوچھی تو فرمایا کہ عثمان ؓتو وہ رسول اللہ ﷺ کے چچیرے بھائی اور آپ کے داماد تھے اور دیکھو کہ وہ گھر ان کا ہے جہاں تم دیکھ رہے ہو، [38] حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے بعد پھر امیر معاویہؓ کی خلافت تسلیم کرلی اور اس عہد کے بعض معرکوں میں شریک ہوئے ؛چنانچہ قسطنطنیہ کی مہم میں شریک تھے۔ [39][40]

خلافت یزید

[ترمیم]

امیر معاویہ کے بعد جب یزید تخت حکومت پر بیٹھا توحضرت ابن عمرؓ نے محض اختلاف اُمت کے فتنہ سے بچنے کے لیے اس کی بیعت کرلی اور فرمایا اگر یہ خیر ہے تو ہم اس سے راضی ہیں اور اگر شر ہے تو ہم نے صبر کیا۔ [41] کچھ دنوں کے بعد جب مدینہ والوں نے فسخ بیعت کیا تو آپ نے اسی فتنہ سے بچنے کے خاطر اپنے اہل و عیال کوبلا کر فرمایا کہ میں نے اس شخص کے ہاتھ پر خدا اور رسول کی بیعت کی ہے اور میں نے آنحضرت کو فرماتے سنا ہے کہ قیامت کے دن ہر دھوکا باز کا ایک ایک جھنڈا کھڑا کیا جائے گا کہ یہ فلاں کی فریب کاری ہے اور سب سے بڑا فریب یہ ہے کہ خدا کے ساتھ شرک کیا جائے کہ ایک شخص کسی کے ہاتھ پر خدا اور رسول کے لیے بیعت کر لے اور پھر اس کو فسخ کر دے، اس لیے تم میں سے کوئی شخص فسخ بیعت میں حصہ نہ لے اگر کسی نے حصہ لیا تو میرے اور اس کے درمیان تلوار فیصلہ کرے گی۔ [42] یزید کی بیعت آپ نے کسی لالچ یا خوف کی بنا پر نہیں کی تھی، امیر معاویہ ؓ نے جب یزید کو ولی عہد بنانا چاہا تو عمرو بن العاصؓ کو ان کے پاس ان کا عندیہ لینے کے لیے بھیجا تھا انھوں نے جاکر دبی زبان سے اس کا اظہار کیا اور اس کے عوض ایک رقم خطیر پیش کرنا چاہی ،رشوت کانام سن کر وہ غصہ سے کانپ اُٹھے اور اسی وقت عمرو بن العاصؓ کو کھڑے کھڑے نکال دیا۔ [43] [44]

معاویہ بن یزید ، مروان بن حکم اور عبد اللہ بن زبیرؓ کی خلافت

[ترمیم]

یزید کے بعد اس کا بیٹا معاویہ خلیفہ ہوا ، مگر اس کی خلافت صرف تین مہینہ رہی ، اس کے بعد وہ خود خلافت سے دست بردار ہو گیا، [45] اب اس کی وفات کے بعد ایک طرف مکہ میں عبداللہ بن زبیرؓ نے خلافت کا دعویٰ کیا اور عراق حجاز و یمن کے لوگوں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی، دوسری طرف شام میں مروان نے اپنی بیعت لی ،گو اکثر اسلامی ممالک عبداللہ ابن زبیرؓ کی طرف مائل تھے، لیکن حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ ان کے دعوائے خلافت کو بازیچۂ اطفال سے زیادہ وقعت نہ دیتے تھے[46]چنانچہ ان ہی کے زمانہ میں جب فریقین میں جنگ برپا تھی تو ایک شخص نے ان سے آکر کہا کہ خدا فرماتا ہے کہ فتنہ کو روکنے کے لیے لڑو، انھوں نے جواب دیا تھا کہ جب فتنہ تھا تو ہم لڑے، فتنہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو کفار اس کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہ اپنے خدا کی عبادت کرسکیں، اب یہ خانہ جنگی جہاد نہیں ؛بلکہ بادشاہی کے لیے لڑائی ہے [47]مگر باایں ہمہ جب عبدالملک کی طرف سے حجاج عبداللہ ابن زبیرؓ سے لڑنے کے لیے مکہ معظمہ گیا اور خانۂ کعبہ کے ایک حصہ کو اپنے گولوں کا نشانہ بنایا تو وہ سخت برہم ہوئے اور اپنی برہمی کو قابو میں نہ رکھ سکے ۔ [48] [49]

خلافت عبد الملک

[ترمیم]

مروان بن الحکم کے بعد جب عبدالملک بن مروان کی خلافت پر بیعت ہوئی تو آپ نے بھی تحریری بیعت نامہ بھیج دیا جس کا مضمون یہ تھا کہ خدا اور رسول کی سنت پر میں اور میرے لڑکے امیر المومنین عبدالملک کی سمع وطاعت کا بقدر استطاعت عہد کرتے ہیں، [50]عبد الملک بن مروان حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بڑا احترام کرتا تھا اور مذہبی معاملات میں ان کی اقتدا کرتا تھا اور حج کے موقع پر ارکان میں آپ کی اقتدا کا فرمان جاری کرتا تھا۔ [51] [52]

علالت اور وفات

[ترمیم]

74ھ میں تراسی چوراسی (83_84) برس کی عمر میں وفات پائی ،وفات کا واقعہ یہ ہے کہ حج کے زمانہ میں ایک شخص کے نیزہ کی نوک جو زہر میں بجھی ہوئی تھی ان کے پاؤں میں چبھ گئی یہ زہر ان کے جسم میں سرایت کر گیا اور یہی زخم ان کی موت کا باعث ہوا، عام طور سے خیال کیا جاتا ہے کہ یہ کوئی اتفاقی واقعہ نہ تھا،بلکہ حجاج کے اشارہ سے اس طرح زخمی کیے گئے تھے ؛البتہ اس کی تفصیل میں اختلاف ہے، مستدرک کی روایت ہے کہ حجاج بن یوسف نے جب خانۂ کعبہ میں منجنیق نصب کرائی اور ابن زبیر ؓ کو شہید کرایا تو اس کا یہ فعل شنیع ابن عمرؓ کو بہت ناپسند ہوا، آپ نے اس کو بہت برا بھلا کہا، حجاج برا فروختہ ہو گیا اور اس کے اشارے سے شامیوں نے زخمی کر دیا۔ [53]

حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ عبد الملک بن مروان نے حجاج کو ہدایت کی تھی کہ وہ عبد اللہ ابن عمرؓ کی مخالفت نہ کرے، یہ حکم اس پر بہت شاق گذرا ؛لیکن عدول حکمی بھی نہیں کرسکتا تھا، اس لیے دوسرا طریقہ اختیار کیا اور آپ کو زخمی کرا دیا۔ [54] ابن سعد کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ حجاج خطبہ دے رہا تھا، اس میں اس نے عبد اللہ ابن زبیرؓ پر یہ اتہام لگایا کہ انھوں نے نعوذ باللہ کلام اللہ میں تحریف کی ہے، حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ نے اس کی تردید کی اور فرمایا تو جھوٹ بولتا ہے،نہ ابن زبیرؓ میں اتنی طاقت ہے نہ تجھ میں یہ مجال ہے، مجمع عام کے سامنے ان کی یہ ڈانٹ اس کو بہت ناگوار ہوئی، لیکن حضرت ابن عمرؓ کے ساتھ علانیہ کوئی بُرا برتاؤ نہیں کرسکتا تھا، اس لیے خفیہ انتقام لیا۔ [55] ابن خلقان اور اسد الغابہ میں اس کے علاوہ دو روایتیں نقل کی گئی ہیں، ایک یہ کہ ایک دن حجاج بن یوسف خطبہ دے رہا تھا، اس کو اس قدر طول دیا کہ عصر کا وقت تنگ ہو گیا، آپؓ نے فرمایا کہ آفتاب تیرا انتظار نہیں کرسکتا، حجاج نے کہا جی میں آتا ہے کہ تمھاری آنکھیں پھوڑ دوں ،فرمایا تجھ کو تاہ بین سے یہ بھی کچھ بعید نہیں، دوسری روایت یہ ہے کہ عبد الملک نے فرمان جاری کیا کہ تمام حجاج مناسک حج میں حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ کی اقتداء کریں، حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ عرفات اور دوسرے مواقف سے بغیر حجاج کا انتظار کیے بڑھ جاتے تھے، حجاج بن یوسف کی فرعونیت کب اس کو گوارا کرتی؛ مگر عبدالملک کے حکم سے مجبور تھا، اس لیے آپ کی جان کا خواہاں ہو گیا۔ [56]

ابن عبدالبر نے الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب میں بھی یہی دونوں روایتیں نقل کی ہیں، اگرچہ ان روایتوں کی صورت واقعہ میں اختلاف ہے، مگر تضاد نہیں، اس لیے ان میں سے کسی کو غلط نہیں کہا جا سکتا ،ہو سکتا ہے کہ یہ تمام واقعات یکے بعد دیگرے آتے رہے ،مگر حجاج بن یوسف ضبط کرتا رہا،لیکن جب اس نے دیکھا کہ عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے اس کی پیش نہیں چلتی اور وہ اس کو مطلق دھیان میں نہیں لاتے تو اخیر میں آپ کا قصہ ختم کردینے کا فیصلہ کر لیا، لیکن علی الاعلان وہ آپ پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا، اس لیے یہ صورت نکالی کہ اپنے آدمیوں میں سے کسی کو حکم دیا کہ وہ حج کے موقع پر جب لوگوں کا ازدحام ہوتا ہے مسموم نیزہ سے آپ کے پاؤں میں خراش دیدیں، اس ازدحام میں زخمی کرنے والا گرفتار بھی نہ ہو سکے گا اور زہر کے اثر سے آپ کا کام بھی تمام ہوجائے گا اوریہ ہوا ،جب آپ بیمار ہوئے تو حجاج بن یوسف عیادت کو آیا اور مزاج پرسی کے بعد کہاکہ کاش مجھ کو ملزم کا پتہ چل جاتا تو میں اس کی گردن اُڑا دیتا،آپ نے فرمایا تم ہی نے یہ سب کچھ کیا اور پھر کہتے ہو کہ میں مجرم کو قتل کر دیتا،نہ تم حرم میں اسلحہ باندھنے کی اجازت دیتے نہ یہ واقعہ پیش آتا، [57] یہ سن کر وہ خاموش ہو گیا۔ حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مدینہ منورہ میں وفات پانے کی تمنا بہت تھی ،چنانچہ جب آپ کی حالت نازک ہوئی تو دعا کرتے تھے کہ خدایا مجھ کو مکہ میں موت نہ دے،[58] اور اپنے صاحبزادہ سالم سے وصیت بھی کی کہ اگر میں مکہ ہی میں مر جاؤں تو حدود حرم کے باہر دفن کرنا؛ کیونکہ جس زمین سے ہجرت کی پھر اسی میں پیوند خاک ہوتے اچھا نہیں معلوم ہوتا، وصیت کے چند دنوں بعد سفر آخرت کیا،[59] اور علم وعمل کا یہ آفتاب تاباں ہمیشہ کے لیے روپوش ہو گیا۔ [60] [61]

تجہیز و تکفین

[ترمیم]

حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو وفات کے بعد وصیت کے مطابق لوگوں نے حرم کے باہر دفن کرنا چاہا، مگر حجاج بن یوسف نے مداخلت کی اور خود ہی نمازجنازہ پڑھالی ،مجبوراً "فخ" مہاجرین کے قبرستان میں سپرد خاک کیے گئے۔ [62] [63]

فضل و کمال

[ترمیم]

حضرت ابن عمرؓ کو آنحضرت کی صحبت آپ کی بارگاہ کی دائمی حاضر باشی، سفروحضر کی ہمرکابی،حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی تعلیم و تربیت اور خود ان کی تلاش و جستجو نے مذہبی علوم کا دریا بنادیا تھا، قرآن ،تفسیر، حدیث، فقہ وغیرہ تمام مذہبی علوم کا بحر بے کران تھے ،آپ کا شمار علمائے مدینہ کے اس زمرہ میں تھا جو علم و عمل کے مجمع البحرین سمجھے جاتے تھے۔ [64] [65]

تلاوت و تفسیر قرآن

[ترمیم]

عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تلاوت قرآن کے ساتھ آپ کو غیر معمولی شغف تھا، اس کی سو روآیات پر فکر و تدبر میں عمر عزیز کا بہت بڑا حصہ صرف کیا، اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ صرف بقرہ پر 14 برس صرف کیے ،[66] اس غیر معمولی شغف نے آپ میں قرآن کی تفسیر و تاویل کا غیر معمولی ملکہ پیدا کر دیا تھا، فہم قرآن کا ملکہ آپ میں عنفوان شباب ہی میں پیدا ہو گیا تھا،چنانچہ اکابر صحابہؓ کے ساتھ آنحضرت کی علمی مجلسوں میں شریک ہوتے تھے، ایک مرتبہ آنحضرت کے گرد صحابہؓ کا مجمع تھا، عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی موجود تھے، آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے قرآن پاک کی اس مثال: "أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ الله مَثَلاً كَلِمَةً طَيّبَةً كَشَجَرةٍ طَيّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِى السماء تُؤْتِى أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبّهَا" [67] تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کلمہ طیبہ کی کیسی اچھی مثال دی ہے کہ وہ پاک درخت کے مثل ہے جس کی جڑ مضبوط ہے اور شاخیں آسمان تک ہیں وہ اپنے خدا کے حکم سے ہر وقت پھل لاتا ہے۔ کے متعلق صحابہ کرامؓ سے پوچھا کہ وہ درخت کون سا ہے، جو مرد مسلم کی طرح سدا بہار ہے، اس کے پتے کبھی خزاں رسیدہ نہیں ہوتے اور ہر وقت پھل دیتا رہتا ہے،اس سوال کے جواب میں تمام صحابہؓ کرام حتی کہ حضرت ابوبکرؓ صدیق تک خاموش رہے، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بتایا کہ یہ کھجور کا درخت ہے ؛ لیکن عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ پہلے ہی سمجھ چکے تھے؛ لیکن اکابر صحابہؓ کی خاموشی کی وجہ سے چپ رہے، جب حضرت عمرؓ بن خطاب سے اس کا ذکر کیا تو انھوں نے کہا کہ تم نے جواب کیوں نہ دیا، تمھارا جواب دینا مجھے فلاں فلاں چیز سے زیادہ محبوب ہوتا ۔ [68] قرآن کے الفاظ کے معنوں پر بہت غائر نظر تھی، وہ ان کے ایسے جامع معنی اختیار کرتے تھے جو مفہوم پر پورے طور سے عادی ہوتی تھے، چنانچہ"اَقِمِ الصَّلوٰۃ لِدُلُوک الشمس الی غسق الیل" میں دلوک کے معنی ڈھلنے کے لیتے تھے۔ "دلوک"لغت میں ڈھلنے زرد ہونے غروب ہونے ،تینوں معنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، حضرت ابن عمرؓ اس کے معنی مطلق ڈھلنے کے لیتے تھے، [69] اس معنی سے ظہر ،عصر اور مغرب تینوں کے اوقات متعین ہو جاتے ہیں، اس لیے کہ میل یا زوال کی تین منزلیں ہیں، ایک متعارف جس میں سمت الراس سے زوال ہوتا ہے، جو ظہر کا وقت ہے،دوسرا جس میں سمت نظر سے ڈھلتا ہے، یہ عصر کا وقت ہے، تیسرا وہ جس میں سمت افق سے ڈھل کر غروب ہو جاتا ہے، یہ مغرب کا وقت ہے۔ بعض اوقات آیات کے شان نزول اور ناسخ و منسوخ کی لاعلمی کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا ہو جاتے ہیں، ابن عمرؓ اپنی فہم قرآنی سے اس قسم کے شکوک کا ازالہ کر دیتے تھے ،ایک شخص کو قرآن پاک کی اس آیت: "وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ" [70] جو لوگ سونا اورچاندی جمع کرتے ہیں اوراس کو خدا کی راہ میں صرف نہیں کرتے،اس کو عذاب الیم کی بشارت دیدو۔ کے بارہ میں یہ شبہ پیدا ہوا کہ زکوٰۃ دینے کے بعد کیوں انفاق فی سبیل اللہ کا مطالبہ ہے اور عدم انفاق کی صورت میں عذاب الیم کی وعید کیوں ہے، اس نے حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ سے پوچھا، آپ نے بتایا کہ یہ وعید اس شخص کے لیے ہے،جو سونا چاندی جمع کرکے زکوٰۃ نہیں دیتا، وہ قابل افسوس ہے اور یہ آیت زکوٰۃ کے نزول کے قبل کی ہے،زکوٰۃ تو خود ہی مال کو ظاہر کر دیتی ہے ۔[71]

اسی آیت میں ایک شخص نے کنز کے معنی پوچھے، آپ نے ایسے لطیف معنی بتائے کہ اگر یہ آیت نزول زکوۃ کے بعد کی بھی ہوتی تب بھی اس پر کوئی اعتراض نہ ہو سکتا، کنز کے لغوی معنی مال مدفونہ کے ہیں، حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ نے بتایا کہ کنز اس مال کو کہتے ہیں جس کی زکوٰۃ ادا کی جائے، اس معنی سے لاینفقون کا مفہوم صرف یکنزون سے ادا ہوجاتا ہے اور ینفقونہا سے مزید تاکید ہو جاتی ہے اور کنز کے لغوی معنی بھی نہیں جاتے ،کیونکہ زکوٰۃ نہ دی جائے گی تو خواہ مخواہ جمع ہی ہوگا، ورنہ پھر زکوٰۃ کا مطالبہ اور عذاب الیم کی وعید کیوں ہوتی اور جمع بمنزلہ دفن کے ہے، اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ قرآن پاک اصل مفہوم ومنشاء اوراس کے انداز بیان کو سمجھنے میں ابنِ عمرؓ کو کیسا ملکہ حاصل تھا۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے پوچھا کہ آپ فتنہ میں قتال کے بارے میں کیا فرماتے ہیں، قرآن کا حکم ہے کہ: قاتلو ہم حتی لاتکون فتنۃ ان لوگوں سے مقاتلہ کرویہاں تک کہ فتنہ نہ باقی رہے یہ سوال مسلمانوں کی خانہ جنگی کے زمانہ میں کیا گیا تھا، انھوں نے فرمایا تم فتنہ کے معنی کیا سمجھتے ہو، یہاں قتال علی الفتنہ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم بادشاہت کے لیے لڑو، بلکہ قتال سے وہ قتال مراد ہے جو آنحضرت نے مشرکین کے ساتھ فرمایا تھا کہ ان کے دین میں داخل نہ ہونا مسلمانوں کے لیے فتنہ تھا۔ [72] صحیح بخاری میں اس واقعہ کے متعلق جو روایت ہے وہ اس سے زیادہ صحیح ہے کہ حضرت ابن زبیرؓ کے ہنگامہ کے زمانہ میں دو آدمی ان کے پاس آئے اور کہا سب لوگ ختم ہو چکے، آپ عمرؓ کے بیٹے اور رسول اللہ کے صحابی ہیں، آپ کیوں نہیں میدان میں آتے، فرمایا خدا نے بھائی کا خون حرام کیا ہے اس لیے میں نہیں نکلتا ،دونوں نے کہا خدا توخود فرماتا ہے۔ "وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ" [73] یعنی ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اوردین خالص خدا کے لیے ہوجائے۔ فرمایا بیشک ہم لڑے یہاں تک فتنہ باقی نہ رہا اور دین خدا کے لیے ہو گیا اور تم لوگ اس لیے لڑنا چاہتے ہو کہ فتنہ پیدا ہو اور دین غیر خدا کے لیے ہوجائے، دوسری روایت میں ہے کہ انھوں نے کہا یہ اس وقت کا حکم ہے جب مسلمان تعداد میں کم تھے اور وہ اپنے مذہب کا اعلان نہیں کرسکتے اور جب کرتے تھے تو کفار ان کو ستاتے تھے، یہی فتنہ تھا جس کو روکنے کے لیے جہاد تھا، اب مسلمانوں کی تعداد بہت بڑھ گئی،اس لیے اب اس فتنہ کا ڈر نہیں رہا۔ [74] [75]

حدیث

[ترمیم]

تفسیر قرآن کے بعد حدیث نبوی کا درجہ ہے، عبد اللہ ابن عمرؓ کا شمار اساطین حفاظ حدیث میں ہے،اگر ان کی مرویات کی تعداد حدیث کی کتابوں سے علاحدہ کرلی جائے تو ان کے بہت سے اوراق سادہ رہ جائیں گے، ان کی مجموعی تعداد 2630 ہے، ان میں 170 متفق علیہ ہیں اور 81 میں بخاری اور 31 میں مسلم منفرد ہیں۔ [76] ،[77][78]

حدیث کی طلب و جستجو

[ترمیم]

ابن عمرؓ کو حدیث نبوی کا اتنا شوق اور اس کی اس قدر جستجو تھی کہ اپنی غیر حاضری کے اقوال اور افعال نبوی ،ان لوگوں سے جو حضور کی خدمت میں حاضر رہا کرتے تھے پوچھ لیا کرتے تھے اور ان کو یاد رکھتے تھے ،[79] اگر کوئی ایسی حدیث یا ایسا مسئلہ سنتے، جو ان کے علم میں نہ ہوتا، تو فوراً خود آنحضرت یا حدیث کے راوی کے پاس جا کر اس کی تصدیق کرتے ، ایک مرتبہ کسی نے ایک مسئلہ بیان کیا، جو ان کے علم میں نہ تھا، فوراً خدمت نبوی ﷺ میں حاضر ہوکر اس کی تصدیق کی، [80] ایک مرتبہ ایک لیثی نے ابو سعید خدریؓ کے حوالہ سے بیان کیا کہ آنحضرت نے سونا چاندی کی بیع صرف اس صورت میں جائز رکھی ہے کہ برابر ہو ،ان کو اس کا علم نہ تھا، اس لیے ابو سعید خدریؓ کے پاس جاکر اس کی تصدیق کی۔ [81] [82]

حدیث کی اشاعت و تعلیم

[ترمیم]

اس تلاش وجستجو نے حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حدیث کا دریا بنادیا تھا جس سے ہزاروں لاکھوں مسلمان سیراب ہوئے، ان کی ذات سے حدیث کا وافر حصہ اشاعت پزیر ہوا،حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ آنحضرت کے بعد ساٹھ سال سے زیادہ زندہ رہے، اس میں آپ کا مشغلہ صرف علم کی اشاعت تھا، [83] اسی لیے آپ نے کوئی عہدہ قبول نہیں کیا کہ اس سے یہ مبارک سلسلہ منقطع ہو جاتا، مدینہ منورہ میں مستقل حلقہ درس تھا، اس کے علاوہ اشاعت کے لیے سب سے بہترین موقع حج کا تھا، جس میں تمام اسلامی ملکوں کے مسلمان جمع ہوتے تھے، چنانچہ آپ اس موقع پر فتوی دیتے تھے، اس سے بہت جلد مشرق سے مغرب تک احادیث پھیل جاتی تھیں،[84]لوگوں کے گھروں پر جاکر حدیث سناتے تھے،زید بن اسلم اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ عبد اللہ ابن عمرؓ کے ساتھ عبد اللہ بن مطیع کے یہاں گئے،عبد اللہ نے خوش آمدید کہا اوران کے لیے فرش بچھایا،انھوں نے کہا میں اس وقت تمھارے پاس صرف ایک حدیث سنانے کی غرض سے آیا ہوں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے جس شخص نے (امیر کی) اطاعت سے دستبرداری کی وہ قیامت کے دن ایسی حالت میں آئے گا کہ اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہوگی اور جو شخص جماعت سے الگ ہو کر مرا وہ جاہلیت کی موت مرا۔ [85] ان کی تعلیم کا سلسلہ ہر وقت جاری رہتا تھا، علی بن عبد الرحمن کا بیان ہے کہ میں حالتِ نماز میں کنکریوں سے شغل کررہا تھا،نماز تمام کر چکا تو ابن عمرؓ نے ٹوکا اور کہا جس طریقہ سے رسول اللہ ﷺ پڑھتے تھے، اس طریقہ سے پڑھا کرو، پھر خود ہی طریقہ بتایا ۔ [86] ایک مرتبہ سعید بن یسار مکہ کے راستہ میں آپ کے ساتھ تھے صبح ہونے کے قریب ہوئی تو سعید نے سواری سے اتر کرو ترپڑھی اور پڑھ کر پھر عبد اللہ ابن عمرؓ سے مل گئے، انھوں نے پوچھا کہاں تھے، کہا صبح ہو جانے کے خوف سے سواری سے اتر کر وتر ادا کی،ابن عمرؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کی ذات تمھارے لیے اسوۂ حسنہ نہیں ہے، سعید نے کہا خدا کی قسم ضرور ہے، کہا رسول اللہ اونٹ ہی پر بیٹھے بیٹھے وتر پڑھتے تھے۔ [87] خود آپ کی ذات گرامی اوصاف نبوی ﷺ کی ایسی زندہ تصویر اورایسا جامع مرقع تھی جو سینکڑوں درس اور ہزاروں تلقینات سے زیادہ کار آمد تھی جس کا صرف ایک نظر دیکھ لینا اور چند ساعتیں آپ کی صحبت اٹھا لینا برسوں کے درس و تدریس کے برابر ہوتا ہے، آپ کے صحیفہ زندگی میں تمام احادیث عملاً بعنوان جلی مرقوم تھیں وہ تمام صحابہ اور تابعین جنھوں نے ان کو دیکھا تھا، بالاتفاق ان کی اس حیثیت کو تسلیم کرتے تھے، حضرت ابو حذیفہ ؓ کہتے تھے کہ آنحضرت کی وفات کے بعد ہرشخص کچھ نہ کچھ بدل گیا،عمرؓ اوران کے بیٹے عبد اللہ بن عمرؓ نہیں بدلے،حضرت عائشہ ؓ فرمایا کرتی تھیں کہ عہد نبوی کی حالت و کیفیت کا عبد اللہ بن عمرؓ سے زیادہ کوئی پابند نہیں رہا، حضرت نافع جو عبد اللہ بن عمرؓ کے خادم اورشاگرد خاص تھے اور جو ان کی خدمت میں تیس برس رہے تھے، وہ تابعین اور اپنے شاگردوں سے کہتے کہ اگر اس زمانہ میں ابن عمرؓ ہوتے تو ان کو آثار نبوی کی شدت سے اتباع کرتے ہوئے دیکھ کر تم یہی کہتے کہ یہ دیوانہ ہے۔ [88] آپ کی ذات دوسروں کے لیے نمونہ تھی، لوگ دعا کرتے تھے کہ خدایا ہماری زندگی میں ابن عمرؓ کو زندہ رکھ کہ ان کی اقتدا سے فیض یاب ہوتے رہیں، ان سے زیادہ عہد رسالت کا کوئی واقف کار نہیں۔ [89] اکابر علما مشکلات میں ان کی طرف رجوع کرتے تھے، سعید بن جبیر جو خود بھی بڑے تابعی تھے بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے لعان کے متعلق مجھ سے سوال کیا،مجھ کو معلوم نہ تھا، میں نے ابن عمرؓ سے جاکر دریافت کیا،[90] ابن شہاب زہری جن سے بڑا کوئی محدث تابعین میں نہیں گذرے، کہا کرتے تھے کہ عبد اللہ ابن عمرؓ وہ ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے بعد ساٹھ برس تک افادۂ خلق میں مصروف رہے، ان سے رسول اللہ ﷺ کی کوئی بات چھپی نہ تھی۔ [91] چونکہ آپ ایک عالَم کے مقتدا تھے، آپ کا ہر قول وفعل دوسروں کے لیے نمونہ بن جاتا تھا،اس لیے اپنے ان امور واعمال کی جن کا سنت سے تعلق نہ ہوتا،بلکہ طبعاً یا بدرجہ مجبوری سرزد ہوتے تو تصریح فرما دیتے تھے، آپ مروہ میں بال بنوا رہے تھے،لوگ گردوپیش جمع ہوکر دیکھنے لگے،فرمایا یہ سنت نہیں ہے، بلکہ بال تکلیف دے رہے تھے، اس لیے بنوا دیے۔ [92] ایک شخص آپ کے پہلو میں نماز پڑھ رہا تھا، چوتھی رکعت میں پلتھی مارکر بیٹھا اور دونوں پاؤں موڑ لیے، آپ نے اس کو مذموم بتایا، اس نے کہا آپ ایسے بیٹھتے ہیں،فرمایا مجبوری سے کرتا ہوں، [93] آپ کا بدن بھاری تھا اس لیے مسنون طریقہ سے نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ [94] [8]

احتیاط فی الحدیث

[ترمیم]

لیکن اس فضل و کمال ،اس وسعت علم اور اس دقت ِنظر کے باوجود حدیث بیان کرنے میں حد درجہ محتاط تھے، محمد بن علی راوی ہیں کہ صحابہ کی جماعت میں حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ سے زیادہ حدیث بیان کرنے میں کوئی محتاط نہ تھا، وہ حدیث میں کمی و بیشی سے بہت ڈرتے تھے، [95]ابو جعفر کا بیان ہے کہ عبد اللہ ابن عمرؓ رسول اللہ کی حدیثوں میں کمی و زیادتی سے بہت زیادہ خائف رہتے تھے،[96] سعید اپنے والد کی زبانی بیان کرتے ہیں کہ حدیث نبوی میں عبد اللہ ابن عمرؓ سے زیادہ محتاط میری نظر سے کوئی نہیں گذرا،[97] اس لیے آپ عام طور پر حدیث بیان کرنے سے گریز کرتے تھے، مجاہد کا بیان ہے کہ مدینہ کے راستہ میں میرا اور عبد اللہ ابن عمرؓ کا ساتھ ہوا، اس درمیان میں انھوں نے صرف ایک حدیث بیان کی ،[98] امام شعبی کا بیان ہے کہ میں ایک سال تک عبد اللہ بن عمر کے پاس بیٹھا؛ لیکن انھوں نے کوئی حدیث نہیں بیان کی، اس کا یہ مقصد نہیں ہے کہ وہ روایت حدیث کو برا سمجھتے تھے یا کم بیان کرتے تھے ؛بلکہ بلا ضرورت نہیں بیان کرتے تھے۔ وہ احادیث کو آنحضرت کے الفاظ میں روایت کرنا ضروری سمجھتے اور اس میں تغیر پسند نہ کرتے تھے، ایک مرتبہ عبید بن عمیر ؓ حدیث سنا رہے تھے کہ : مَثَلُ الْمُنَافِقِ كَشَاةٍ مِنْ بَيْنِ رَبِيضَيْنِ إِذَا أَتَتْ هَؤُلَاءِ نَطَحْنَهَا وَإِذَا أَتَتْ هَؤُلَاءِ نَطَحْنَهَا’ حضرت ابن عمرؓ نے فورا ٹوک دیا کہ یہ حدیث اس طرح نہیں ؛بلکہ یوں ہے، "كَشَاةٍ بَيْنَ غَنَمَيْن" عبید عمر میں آپ سے بڑے تھے، اس لیے ان کو غیر ت آگئی، بہت برہم ہوئے، ان کے اس بے جا غصہ کا یہ جواب دیا کہ اگر میں نے آنحضرت سے اس طریقہ سے نہ سنا ہوتا تو نہ تردید کرتا۔ [99] اس احتیاط کی بنا پر اکابر علما آپ کی مرویات کو اتنی قابل اعتماد سمجھتے تھے کہ پھر کسی مزید توثیق کی ضرورت باقی نہیں رہتی، امام شعبی فرماتے تھے کہ عبد اللہ ابن عمرؓ کی روایت بہت درست ہوتی تھی، [100] ابن شہاب زہریؓ ان کی رائے کے بعد پھر کسی دوسری رائے کی ضرورت نہیں سمجھتے تھے، موطا امام مالک جس کو امت نے کتاب اللہ کے بعد صداقت اور وثوق میں دوسرا درجہ دیا ہے زیادہ تر ان ہی کی روایات پر مشتمل ہے، خصوصاً وہ روایات جو حضرت ابن عمرؓ سے ان کے خادم و شاگرد نافع نے بیان کی ہیں اور ان سے امام مالک نے سنا ہے حضرت ابن عمرؓ آنحضرت کی خدمت میں تقریباً پندہ برس رہے، پھر شیخین کا پورا زمانہ دیکھا اورحضرت عمر کی خدمت میں گو یا تیس برس رہے، پھر حضرت نافع ، عبد اللہ ابن عمرؓ کی صحبت میں تیس برس رہے ،پھر امام مالک رحمہ اللہ علیہ حضرت امام نافع کے حلقہ درس میں دس بارہ برس بیٹھے، اسی طرح "مالک عن نافع عن ابن عمر" کا سلسلہ محدثین کے نزدیک سلسلۃ الذہب کہا جاتا ہے اور بجا کہا جاتا ہے کہ: این سلسلہ ازظلائے ناب است این خانہ تمام آفتاب امت ذات نبوی کے علاوہ آپ کے شیوخ میں حضرت ابوبکرؓ، عثمانؓ، ،علیؓ، زید بن ثابتؓ عبداللہ بن مسعودؓ، بلالؓ، صہیب ؓ، رافع بن خدیجؓ، عائشہؓ اور حفصہؓ جیسے اکابر امت ہیں۔ [101] [102] [6][103]

تلامذہ

[ترمیم]

آپ کے علم کی کثرت اورفیضان نے آپ کے تلامذہ کا دائرہ بہت وسیع کر دیا تھا، صاحبزادوں میں بلال، حمزہ، زید، سالم، عبد اللہ، عبید اللہ ،عمر، پوتوں میں ابوبکر ،محمد، عبد اللہ ،غلاموں میں نافع، اسلم، بھتیجوں میں حفص، عبد اللہ، عام لوگوں میں زید ،خالد ،عروہ، ابن زبیر،موسیٰ بن طلحہ، ابوسلمہ بن عبد الرحمن، عامر بن سعد، حمید بن عبد الرحمن، سعید ابن مسیب، عون بن عبد اللہ، قاسم، محمد بن ابی بکر، مصعب بن سعد، ابوبردہ بن ابی موسیٰ اشعریؓ، مالک ، ابن سیرین، بسر بن سعید، بکر بن عبد اللہ المزنی، ثابت البنانی،جبلہ بن سحیم،حرملہ، حکم بن مینا، حکیم بن ابی جرہ، حمید بن عبد الرحمن حمیری، ابوصالح الصمان زاد ان ابو عمر، زبیر بن عربی زیادبن حییر، ابو عقیل، زہرہ بن معبد، سالم بن ابی الجعد، زید بن جیر، حشمی، سعد بن عبیدہ، سعید ابن حارث، سعید بن عمرو، صفوان بن محرز، طاؤس ، عطا، عکرمہ ،مجاہد ،سعید ابن جبیر، ابو زبیر، عبد اللہ بن شقیق، عقیلی عبد اللہ بن ابی ملیکہ ،عبد اللہ بن مرہ ہمدانی، عبد اللہ ابن کیسان، عبید بن جریح ،عبد اللہ بن مقسم، عکرمہ بن خالد مخزومی ،علی بن عبد اللہ البارقی، علی بن عبد الرحمن وغیرہ ہم۔ [104] [105]

فقہ

[ترمیم]

حدیث کے بعد فقہ کا درجہ ہے کہ اسی پر تشریع اسلامی کا دارومدار ہے، حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ کو تفقہ فی الدین میں درجہ کمال حاصل تھا،آپ کی ساری عمر علم و افتاء میں کٹی،مدینہ کے ان مشہور صاحب فتاویٰ صحابہؓ میں جن کے فتاویٰ کی تعداد زیادہ ہے،ایک ابن عمرؓ بھی تھے، [106] فقہ مالکی جو ائمہ اربعہ میں سے ایک امام کی فقہ ہے، اس کا تمام تر دارومدار حضرت ابن عمرؓ کے فتاوی پر ہے،[107] اس بنا پر امام مالک فرماتے تھے کہ ابن عمر ؓ ائمہ دین میں تھے ، [108] ابن عمرؓ کے فتاوی جمع کیے جائیں تو ایک ضخیم جلد تیار ہو سکتی ہے ،[109] کبار کی رائے ہے کہ تنہا ابن عمرؓ کے اقوال ، اسلامی مسائل کے استفتاء کے لیے کافی ہیں۔

احتیاط فی الفتاویٰ

[ترمیم]

مگر اس تفقہ کے باوجود حدیث کی طرح فتاوی میں بھی بہت محتاط تھے، جب تک کسی مسئلہ کے متعلق پورا یقین نہ ہوتا، فتویٰ نہ دیتے، حافظ ابن عبد البر نے استیعاب میں لکھا ہے کہ وہ اپنے فتوں میں اور اعمال میں نہایت سخت محتاط تھے اورخوب سونچ سمجھ کر کہنے والے اورکرنے والے تھے۔ [110] اگر کوئی مسئلہ نہ معلوم ہوتا تو اپنی کسرِ شان کا لحاظ کیے بغیر نہایت صفائی کے ساتھ اپنی لا علمی ظاہر کردیتے،ایک مرتبہ کسی نے مسئلہ پوچھا، آپ کو علم نہ تھا، فرمایا مجھے نہیں معلوم، اس کو ان کی صاف بیانی پر تعجب ہوا، کہنے لگا،عبد اللہ ابن عمرؓ بھی خوب آدمی ہیں جو چیز معلوم نہ تھی اس سے صاف لا علمی ظاہر کردی، [111] عقبہ بن مسلم کا بیان ہے کہ ایک شخص نے آپ سے کوئی مسئلہ دریافت کیا، فرمایا مجھ کو نہیں معلوم ،تم میری پیٹھ کو جہنم کا پل بنانا چاہتے ہو کہ تم یہ کہہ سکو کہ ابن عمرؓ نے مجھ کو ایسا فتویٰ دیا تھا۔[112] ابن عباس ؓ کو آپ کا یہ طرز عمل تعجب انگیز معلوم ہوتا تھا، فرمایا کرتے تھے کہ مجھ کو ابن عمرؓ پر تعجب آتا ہے جس چیز میں ان کو ذرا بھی شک ہوتا ہے خاموش رہتے ہیں اور مستفتی کو لوٹا دیتے ہیں، [113] اگر کبھی فتویٰ دینے کے بعد غلطی معلوم ہوتی تو بلا پس وپیش پہلے فتویٰ سے رجوع کرلیتے اور مستفتی کو صحیح فتویٰ سے آگاہ کر دیتے ،ایک مرتبہ عبد الرحمن بن ابی ہریرہؓ نے آبی مردار کے متعلق استفتاء کیا کہ اس کا کھانا جائز ہے یا نہیں، آپ نے ناجائز بتایا،بعد میں قرآن منگا کر دیکھا تو یہ حکم ملا "احل لکم صید البحر وطعامہ" چنانچہ انھوں نے عبد الرحمن کے پاس کہلا بھیجا کہ اس کے کھانے میں کوئی ہرج نہیں ،[114]دوسرے عام مفتیوں کو بھی اپنی رائے و قیاس سے فتویٰ دینے سے منع فرماتے تھے، حضرت جابرؓ بصرہ کے مفتی تھے، ابن عمرؓ ان سے ملے تو پہلی ہدایت یہی فرمائی کہ تم بصرہ کے مفتی ہو، لوگ تم سے استفتا کرتے ہیں، کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے بغیر فتوی نہ دیا کرو، [115] آپ کے نزدیک کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ کے علاوہ کوئی تیسری قسم تھی ہی نہیں۔ [116] [7]

قیاس و اجتہاد

[ترمیم]

تاہم اس احتیاط کے باوجود بعض مسائل میں قیاس واجتہاد ناگزیر ہے؛ کیونکہ کتاب وسنت میں تمام مسائل کا استقصا نہیں ہے، ورنہ فقہ کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجائے گا، ابن عمرؓ پہلے کتاب اللہ پھر سنت رسول اللہ یعنی رسول اللہ ﷺ کے فیصلوں اور عملی مثالوں کی طرف رجوع کرتے تھے، جب مقصد حاصل نہ ہوتا تو اجتہاد کرتے، [117] لیکن مستفتی سے کہہ دیتے کہ یہ میرا قیاس ہے، طاؤس کا بیان ہے کہ جب ابن عمرؓ کے سامنے کوئی ایسا مسئلہ پیش ہوتا جس کے بارہ میں کتاب اور سنت میں کوئی حکم نہ ہوتا، تو پوچھنے والوں سے کہتے کہ، اگر کہو تو اپنے قیاس سے بتادوں۔ [118]

لیکن قیاس و اجتہاد میں بھی آپ کو ایسا خدا داد ملکہ حاصل تھا اور آپ کی رائے بھی اتنی صائب اور فیصلہ کن سمجھی جاتی کہ بڑے بڑے ائمہ اس کے بعد پھر کسی دوسرے کی رائے کی ضرورت نہ سمجھتے تھے، امام ابن شہاب زہری نے اپنے شاگرد امام مالک کو ہدایت کی تھی کہ ابن عمرؓ کے مقابلہ میں کسی کی رائے کو ترجیح نہ دینا کہ وہ آنحضرت ﷺ کے بعد ساٹھ برس تک زندہ رہے، اس لیے آنحضرت ﷺ اورآپ کے صحابہ ؓ کی کوئی بات ان سے چھپی نہ تھی، [119] امام زین العابدینؓ فرماتے تھے کہ ابن عمرؓ بڑے صائب الرائے تھے، [120] بڑے بڑے مشائخ کہا کرتے تھے جس نے ابن عمرؓ کے قول کو اختیار کیا اس نے پھر تلاش و تفحص کے لیے کچھ نہیں چھوڑا ۔ [121] [122]

بعض فتاوے

[ترمیم]

ایک شخص نے عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حاملہ عورت کے روزہ کی نسبت پوچھا کہ اگر حاملہ کو روزہ سخت معلوم ہو یا اس سے نقصان پہنچنے کا احتمال ہو، تو وہ روزہ رکھے یا افطار کرلے فرمایا افطار کرلے اورروزہ کے عوض روزانہ ایک مد گیہوں مسکین کو دے دیا کرے ، [123] قرآن پاک کی آیت ،"وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ" کے متعلق صحابہؓ کی دو جماعتیں ہیں،ایک اس حکم کو منسوخ سمجھتی ہے اور دوسرے اس کو حاملہ، دودھ پلانی والی اور کبیرالسن بوڑھوں کے لیے مخصوص کرتی ہے،حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ کا یہ فتویٰ دوسرے فریق کی تائید کرتا ہے۔ عورتوں کے استعمالی زیوروں کی زکوٰۃ کے بارہ میں صحابہؓ اور مجتہدین کا اختلاف ہے، ایک گروہ اس کی بھی زکوۃ واجب ٹھہراتا ہے، جو حنفیہ کا مسلک ہے، دوسرا گروہ زیور میں زکوٰۃ کے وجوب کا قائل نہیں، حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ کا عمل دوسرے گروہ کا موئد ہے ؛چنانچہ اپنی لڑکیوں کو سونے کے زیورات پہناتے تھے اوران کی زکوٰۃ نہیں دیتے تھے، [124] اس سے حضرت ابن عمرؓ کا یہ فیصلہ معلوم ہوتا ہے کہ استعمالی زیورات میں زکوٰۃ نہیں ہے کہ وہ ایک طرح سے عملاً عورت کے ضروریات میں سے ہیں، ہاں البتہ اگر کوئی زیور کو سرمایہ کے طور پر تجارت کی غرض سے رکھے تو بے شبہ اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی، صحابہؓ میں حضرت عائشہؓ کا بھی یہی مسلک ہے اور مجتہدین میں امام شافعی وغیرہ اس طرف گئے ہیں۔ سکھائے ہوئے کتے کے شکار کی حلت کا مسئلہ تو خود قرآن پاک میں مذکور ہے، مگر اس کی بعض تفصیلات میں لوگوں کا اختلاف ہے،حضرت ابن عمرؓ کا مسلک یہ تھا کہ اگر کتے نے شکار کا کوئی حصہ خود نہیں کھایا ہے تو خواہ وہ شکار مردہ ملے یا زندہ، دونوں صورتوں میں کھایا جا سکتا ہے۔ [125] اگرچہ غلام کے افعال عموماً آقا کی مرضی کے تابع ہیں،تاہم اس کے کچھ فطری حقوق ایسے ہیں جن میں اس کو مکمل اختیار ہے اورآقا کی مرضی اور منشا کو کوئی دخل نہیں، ابن عمرؓ غلام کے ان حقوق کے بڑے محافظ تھے، فرماتے تھے کہ اگر غلام کو آقانے شادی کی اجازت دے دی تو پھر طلاق دینے نہ دینے کا کامل اختیار اسی غلام کو ہوگا، آقا کو اس میں کوئی دخل نہ ہوگا، یعنی اگر آقا طلاق دلانا چاہے تو غلام طلاق دینے پر مجبور نہیں ہے۔ [126] اسی طرح آپ عورتوں کے حقوق کے بھی بڑے محافظ تھے کہ ان کے شوہر ان کو بازیچۂ اطفال نہ بنالیں کہ جب تک چاہا کھیلا اور جب چاہا بگاڑ دیا، ایک شخص نے آکر پوچھا کہ ابو عبد الرحمن میں اپنی بیوی کا معاملہ اس کے ہاتھ میں دیدیا تھا، یعنی طلاق اس کی مرضی پر محول کردی تھی اس نے طلاق لے لی، آپ کا کیا فتویٰ ہے، فرمایا عورت نے جو کچھ کیا صحیح کیا ، یعنی طلاق پڑ گئی اس نے کہا ایسا نہ کیجئے فرمایا میں کرتا ہوں کہ تم نے خود کیا ۔ [127] ربا (سود) کے معاملہ میں بہت سخت تھے، اگر ربا کا خفیف شائبہ بھی نکلتا، تو اس کو ناجائز سمجھتے تھے،ایک مرتبہ ایک سنار نے پوچھا کہ میں سونے کی چیزیں بناکر اس سے زیادہ وزن کے سونے کے ساتھ بیچتا ہوں اوریہ زیادتی میری محنت کا صلہ ہوتی ہے،آپ نے منع کیا ،سونار بار بار پوچھتا تھا اور آپ منع کرتے تھے،آخر میں فرمایا کہ دینار سے دینار اور درہم سے درہم کے تبادلہ میں کسی قسم کی زیادتی نہ ہونا چاہیے اس کا مجھ سے عہد لیا گیا ہے اور میں تم سے عہد لیتا ہوں۔ [128] اس تشدد کی بنا پر آپ قرض کے معاملہ میں کسی جانب سے بھی رعایت پسند نہ کرتے تھے؛ چنانچہ یہ صورت بھی آپ کے نزدیک ناپسندیدہ تھی کہ ایک شخص مدتِ معینہ کے لیے قرض لے پھر قرض خواہ مدت معینہ سے پہلے روپیہ لینا چاہے اور اس کے عوض میں رقم کا کچھ حصہ چھوڑ دے، [129]گوربا کا فائدہ قرض خواہ کو ملتا ہے،اس لیے عام معنی میں یہ شکل ربا کے تحت میں نہیں آتی، لیکن چونکہ قرض کے سلسلہ میں رعایت ہے اوراس سے ایک فریق کو فائدہ پہنچتا ہے،اس لیے اس میں ان کو ربا کا شائبہ نظر آیا۔ عبد اللہ ابن عمرؓ کے فضل و کمال کی جستجو میں جہاں تک ہم اندازہ کرسکے ہیں، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مذہبی علوم کے علاوہ عرب کے دوسرے مروجہ علوم شاعری،نسابی اور خطابت کو آپ کی بارگاہ علم میں بارنہ تھا، اس کا ایک کھلا ہوا سبب یہ ہے کہ آپ زہد و اتقا کے سبب سے مذہبی علوم کے علاوہ دوسرے علوم میں وقت صرف کرنا پسند نہ فرماتے تھے، اس لیے جو وقت بھی ملتا تھا، وہ اسی علمی جہاد میں صرف ہوتا تھا، دوسرا سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ عرب کے جاہلانہ جذبات سے آپ کا دامن ِاخلاق ہمیشہ پاک رہا، حسن و عشق ،حسب و نسب، غلط تہور و شجاعت آپ کے نزدیک بے معنی الفاظ تھے، اس لیے آپ شاعر اورنساب نہ بن سکے کہ یہی چیزیں عرب کی شاعری کے عناصر اور اس کی مائہ خمیر ہیں۔ سیاست کے خار زار سے ہمیشہ دامن کشان رہے، اس لیے تیغ زبان کے جوہر نہ کھلے؛ چنانچہ انھوں نے خطیب کی حیثیت سے کوئی خاص شہرت نہیں حاصل کی،تاہم اپ کے مختصر کلمات اور حکیمانہ اقوال پر زور خطبوں سے زیادہ وقیع، زیادہ پر اثر اور زیادہ مفید تھے، اہل علم کے بارے میں فرماتے تھے کہ "آدمی اس وقت اہل علم کے زمرہ میں شمار ہونے کے قابل ہوگا جب وہ اپنے سے بلند آدمی پر حسد نہ کرے گا اور اپنے سے کمتر کو حقیر نہ سمجھے گا اور اپنے علم کی قیمت نہ لے گا، ایمان کے متعلق فرماتے تھے کہ بندہ اس وقت تک ایمان کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا، جب تک وہ مذہب کے اس بلند مقام پر نہ پہنچ جائے جہاں سے عوام اس کے مذہب میں اس کو احمق نظر آئیں، یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ کوئی بندہ خواہ وہ خدا کے نزدیک برگزیدہ ہی کیوں نہ ہو، مگر جب دنیا کا کچھ حصہ اس کو مل جاتا ہے تو خدا کے یہاں اس کا کوئی نہ کوئی درجہ ضرور گھٹ جاتا ہے[130] نیکی کے بارے میں ارشاد تھا کہ نیکی بہت آسان شے ہے، خندہ جبینی اور شیریں کلامی ۔ [131] [105] [7] .[132]

فضائلِ اخلاق

[ترمیم]

خشیتِ الہی تمام اعمال صالحہ کی بنیاد ہے، خشیت یہ ہے کہ خدا کے ذکر سے انسان کے قلب میں گداز پیدا ہو، قرآن پاک میں صحابہؓ کرام کی تعریف میں ہے"إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ"کہ جب خدایاد آتا ہے تو ان کے دل ہل جاتے ہیں،حضرت ابن عمرؓ میں یہ کیفیت بڑی نمایاں تھی، چنانچہ وہ قرآن پاک کی یہ آیت : أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ (آیہ) کیا مسلمانوں کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ خدا کی یاد سے ان کے دل میں خشوع پیدا ہو۔ پڑھتے تھے تو ان پر بے انتہارقت طاری ہوتی، [133] ایک مرتبہ حضرت عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ، "فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ" تلاوت کی توآپ اس قدر روئے کہ داڑھی اور گریبان آنسوؤں سے تر ہو گئے اور پاس بیٹھنے والوں پر اس قدر اثر ہوا کہ وہ بہ مشکل برداشت کرسکے، [134] فتنہ کے زمانہ میں جب ہر حوصلہ مند اپنی خلافت کا خواب دیکھتا تھا، عبد اللہ ابن عمرؓ اپنے فضل و کمال، زہد و اتقا، لوگوں میں اپنی عام ہر دلعزیزی اور مقبولیت ؛بلکہ اکثروں کی خواہش کے باوجود خداکے خوف سے محترز رہے، امام نافعؓ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے کانوں سے سنا، ایک دن عبد اللہ ابن عمرؓ خانہ کعبہ میں سربسجود ہوکر کہہ رہے تھے کہ خدایا تو خوب جانتا ہے کہ میں نے حصولِ دنیا میں قریش کی مزاحمت صرف تیرے خوف سے نہیں کی۔ [135] [136]

عبادت و ریاضت

[ترمیم]

آپ بڑے عبادت گزار وشب زندہ دارتھے ، اوقات کا بیشتر حصہ عبادت الٰہی میں صرف ہوتا، نافع روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ رات بھر نمازیں پڑھتے تھے، صبح کے قریب مجھ سے پوچھتے کہ سپیدہ صبح نمو دار ہوا؟ اگر میں ہاں کہتا تو پھر طلوع سحر تک استغفار میں مشغول ہوجاتے اور اگر نہیں کہتا تو بدستور نماز میں مشغول رہتے، [137] روزانہ کا معمول تھاکہ مسجد نبوی سے دن چڑھے نکلتے بازارکی ضروریات پوری کرتے، [138] پھر نماز پڑھ کر گھر جاتے ،محمد بن زید اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ عبد اللہ ابن عمرؓ رات بھر میں چار پانچ مرتبہ اُٹھ اُٹھ کر نمازیں پڑھتے تھے، ابن سیرین کا بیان ہے کہ رات کو جتنی مرتبہ آنکھ کھلتی تھی اٹھ کر نماز پڑھتے تھے، [139] تلاوت قرآن سے بڑا شغف تھا، ایک رات میں پورا قرآن ختم کردیتے ، حج کسی سال ناغہ نہیں ہوا حتی کہ فتنہ کے زمانہ میں بھی جب مکہ بالکل غیر مامون حالت میں تھا،انھوں نے حج نہ چھوڑا، چنانچہ عبداللہ ابن زبیرؓ اورحجاج کی جنگ کے زمانہ میں جب انھوں نے حج کا قصد کیا تو لوگوں نے روکا کہ یہ حج کا موقع نہیں فرمایا اگر کسی نے روک دیا تو اسی طرح رک جاؤں گا، جس طرح آنحضرت ﷺ کو دشمنوں نے روکا تھا، صلح حدیبیہ کے زمانہ میں تو آپ رک گئے تھے اور اگر نہ روکا تو سعی وطواف پورا کروں گا، چنانچہ صرف اس لیے کہ آنحضرت نے صلح حدیبیہ کے موقع پر عمرہ کی نیت کی تھی، انھوں نے اس موقع پر عمرہ کی نیت کی کہ آنحضرت کے اس واقعہ سے مشابہت ہو جائے ،[140]وہ یوں بھی تمام مسائل کے بڑے واقف کار تھے اور بکثرت حج کیے تھے، اس لیے صحابہؓ کی جماعت میں مناسکِ حج کے سب سے بڑے عالم مانے جاتے تھے، [141] معمولی سے معمولی عبادت بھی نہ چھوٹتی تھی، چنانچہ ہر نماز کے لیے تازہ وضو کرتے تھے، [142] مسجد جاتے وقت نہایت آہستہ آہستہ چلتے کہ جتنے قدم زیادہ پڑیں گے اتنا ہی زیادہ اجر ملے گا۔ [143] [10][144]

پابندی سنت

[ترمیم]

حضرت ابن عمرؓ کی زندگی حیات نبوی ﷺ کا عکس اور پر تو تھی،لوگ کہا کرتے تھے کہ ابن عمرؓ کو پابندی سنت کا والہانہ جنون تھا، [145] صرف عبادات ہی میں نہیں ؛بلکہ آنحضرت ﷺ کے اتفاقی اوربشری عادات کی بھی وہ پوری پیروی کرتے تھے، یہاں تک کہ جب وہ حج کے لیے سفر میں نکلتے تھے تو آنحضرت اس سفر میں جن جن مقامات پر اترتے تھے وہاں وہ بھی منزل کرتے تھے، جن مقامات پر حضور ﷺ نے نمازیں پڑھی تھیں وہاں یہ بھی پڑھتے تھے، [146] حج کے سفر میں وہی راستہ اختیار کرتے جن راستوں سے آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم گذرا کرتے تھے ،[147]انتہا یہ ہے جس مقام پر حضور ﷺ نے کبھی طہارت کی تھی، اس پر پہنچ کر وہ بھی طہارت کر لیا کرتے تھے، آنحضرت ﷺ مسجد قبا میں سوار اور پیادہ دونوں طریقوں سے تشریف لے گئے تھے، حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ کا بھی یہی عمل تھا، آنحضرت ﷺ ذوالحلیفہ میں اترکر نماز پڑھتے ، حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ بھی یہی کرتے تھے۔ [148] عام دعوت خصوصاً ولیمہ قبول کرنا مسنون ہے، حضرت ابن عمرؓ روزہ کی حالت میں بھی دعوت ولیمہ ردنہ کرتے تھے، اگرچہ اس حالت میں کھانے میں نہ شریک ہو سکتے تھے، مگر داعی کے یہاں حاضری ضرور دیتے تھے، [149] آنحضرت مکہ میں داخل ہونے کے قبل بطحا میں تھوڑا سا سو لیتے تھے، حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ بھی ہمیشہ اس پر عامل رہے، [150] عبادات کے علاوہ وضع قطع اور لباس وغیرہ میں بھی اسوۂ نبوی ﷺ کو پیش نظر رکھتے تھے؛ چنانچہ ارکان میں صرف رکنِ یمانی کو چھوڑتے تھے، تویہ کے دن احرام کھولتے تھے، رنگوں میں زرد رنگ استعمال کرتے، چپل پہنتے تھے، لوگوں نے دریافت کیا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں، فرمایا آنحضرت ﷺ کیا کرتے تھے، [151] غرض آنحضرت ﷺ کے وہ تمام حرکات وسکنات جو آپ نے برسبیل سنت کیے یا طبعا صادر ہوئے، حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ ان سب کی اقتداء کرنا ضروری سمجھتے تھے۔ [77]

زہد و ورع

[ترمیم]

حضرت ابن عمرؓ کی زندگی زہد وتقویٰ کا نمونہ تھی، لوگوں کا اس پر اتفاق تھا کہ حضرت عمرؓ کے وقت میں ان کے جیسے بہت سے لوگ تھے، لیکن عبد اللہ ابن عمرؓ اپنے زمانہ میں بے نظیر تھے، عام طور پر لوگوں میں آخر عمر میں جب قوی کا انحطاط ہوتا ہے، تو زہد و تقوی کا میلان ہوتا ہے، لیکن حضرت ابن عمرؓ کی پیشانی پر عنفوان شباب ہی میں زہدوورع کا نور چمکتا تھا اورجوانان قریش میں آپ کی ذات دنیا کی ہوا وہوس اور نفس کی خواہشوں پر سب سے زیادہ قابو رکھنے والی ذات تھی، [152] حضرت جابرؓ فرماتے تھے کہ ہم میں سوائے ابن عمرؓ کے کوئی ایسا نہ تھا جس کو دنیاوی دلفریبیوں نے اپنی طرف مائل نہ کیا ہو، البتہ ان کا دامن کبھی دنیا سے آلودہ نہیں ہوا، [153] اس سے بڑھ کر اُنکے زہد وتقویٰ کی کیا سند ہو سکتی تھی کہ خود زبانِ رسالت نے ان کو "رجلٌ صالحٌ کی سند عطا کی، اس کا واقعہ یہ ہے کہ حضرت ابن عمرؓ نوعمری کے زمانہ میں اکثر مسجد میں سویا کرتے تھے، ایک دفعہ انھوں نے دوزخ کے فرشتوں کو خواب میں دیکھا، جا کر اپنی بہن ام المومنین حضرت حفصہ ؓ سے بیان کیا، انھوں نے آنحضرت ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا، آنحضرت نے فرمایا کہ عبد اللہ جوان صالح ہے اس کے بعد وہ اکثر نمازوں میں مشغول رہے، [154] اورآخر عمر تک یہی زندگی قائم رہی، ایک مرتبہ حضرت جابرؓ نے لوگوں سے کہا کہ جو آنحضرت کے ایسے اصحاب کو دیکھنا چاہتا ہو، جن میں آپ کے بعد بھی کوئی تغیر نہیں ہوا، تو وہ ابن عمرؓ کو دیکھے ، ان کے علاوہ ہم سے ہر شخص کو حوادث زمانہ نے کچھ نہ کچھ بدل دیا ہے، [155] حضرت زین العابدینؓ فرماتے تھے کہ ابن عمرؓ زہد و تقویٰ اوراصابت رائے میں ہم سب پر فائق تھے،[156] ان کی پوری زندگی بزرگوں کے بیانات کی لفظ بہ لفظ تصدیق کرتی ہے، ابن عمرؓ چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی تقویٰ اور پابندی سنت کا خیال رکھتے تھے ،ایک مرتبہ پانی مانگا، کسی نے شیشہ کے گلاس میں لاک رپیش کیا، انھوں نے انکار کر دیا، جب دوبارہ وہ لکڑی کے پیالے میں لایا تو پی لیا، پانی پی کر وضو کے لیے برتن مانگا، انھوں نے طشت وآفتاب پیش کیا، آپ نے انکار کر دیا اور لوٹے سے وضو کیا۔ [157] مال ودولت آپ کی نگاہ میں کوئی حقیقت نہیں تھی اور بڑی سے بڑی دولت کو ٹھکرادیتے تھے ،امیر معاویہؓ نے جب یزید کو ولی عہد بنانا چاہا تو عمرو بن العاصؓ کو حضرت ابن عمرؓ کا عندیہ کے لیے بھیجا، انھوں نے آکر کہا کہ آپ صحابی اور امیر المومنین کے لڑکے ہیں، لوگ بھی آپ کی بیعت پر آمادہ ہیں، پھر کیوں نہ ہم لوگ آپ کے دستِ حق پرست پر بیعت کر لیں، انھوں نے پوچھا کیا سب آمادہ ہیں؟ کہا وہاں معدودے چند اشخاص کے سوا سب تیار ہیں ، کہا اگر تین آدمی بھی میرے مخالف ہیں تو مجھے خلافت کی ضرورت نہیں ہے، جب عمروبن العاص ؓ کو یقین ہو گیا کہ وہ کشت وخون کو ناپسند کرتے ہیں تو دبے لفظوں میں کہا کہ پھر آپ ایسے شخص کے ہاتھ پر کیوں نہ بیعت کر لیں جس پر سب متفق ہوجائیں گے، اس کے عوض آپ کو اس قدر زمین اورنقد ومال دیا جائے گا کہ آپ کی پشتہا پشت کے لیے کافی ہوگا، یہ سن کر آپ غصہ سے بیتاب ہو گئے اور کہا تمھاری یہ مجال، ابھی میرے یہاں سے نکل جاؤ اور پھر کبھی صورت نہ دکھانا، میرا دین تمھارے درہم و دینار کے عوض فروخت نہیں ہو سکتا، مجھ کو امید ہے کہ جب دنیا سے جاؤں گا تو میرے ہاتھ ان آلائشوں سے پاک ہوں گے۔ [158] زہد وتقوی کی اصل آزمائش کا وہ وقت ہوتا ہے جب دنیا اپنے تمام سازو سامان اور دلفریبیوں کے ساتھ دعوت دیتی ہے، مگر انسان اس کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا حضرت ابن عمرؓ کو بارہا ایسے موقعے ملے کہ اگر آپ چاہتے تو دنیاوی جاہ و جلال اورشان و شوکت کے بلند سے بلند مرتبہ پر فائز ہو سکتے تھے، مگر انھوں نے ان کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہ دیکھا، چنانچہ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد لوگوں نے خلافت قبول کرنے کی خواہش کی اور اس پر سخت اصرار کیا، مگر آپ نے صاف انکار کر دیا اوران فتنوں میں پڑنا گوارا نہ کیا، [159] اس سلسلہ میں ایک عجیب واقعہ قابل ذکر ہے جس سے ان کی اصلی فطرت کا پتہ چلتا ہے،سفیان ثوریؒ ، امام شعبی سے روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ عبد اللہ بن زبیرؓ، مصعب بن زبیر،عبدالملک ؓ بن مروان اور ابن عمرؓ، چاروں آدمی خانہ کعبہ میں جمع تھے، سب کی رائے ہوئی کہ ہر شخص رکن یمانی پکڑ کر اپنی اپنی دلی تمناؤں کے لیے دعا مانگے، پہلے عبد اللہ بن زبیرؓ اٹھے اور دعا مانگی کہ خدایا تو بڑا ہے او رتجھ سے بڑی ہی چیزں مانگی جاتی ہیں اس لیے میں تجھ کو تیرے عرش ،تیرے حرم، تیرے نبی اورتیری ذات کی حرمت کا واسطہ دلا کر دعا کرتا ہوں کہ مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک کہ حجاز پر میری حکومت اورعام خلافت نہ تسلیم کرلی جائے، اس کے بعد مصعبؓ بن زبیرؓ اٹھے اور رکن یمانی پکڑ کر دعا مانگی کہ تو تمام چیزوں کا رب ہے، آخر میں سب کو تیری ہی طرف لوٹنا ہے، میں تیری اس قدرت کا واسطہ دے کر جس کے قبضہ میں تمام عالم ہے دعا کرتا ہوں کہ مجھے اس وقت تک دنیا سے نہ اٹھا جب تک کہ میں عراق کا والی نہ ہوجاؤں اور سکینہ میرے نکاح میں نہ آجائے، اس کے بعد عبد الملک نے کھڑے ہوکر دعا کی کہ اے زمین و آسمان کے خدا میں تجھ سے ایسی چیزیں مانگتا ہوں جس کو تیرے اطاعت گزار بندوں نے تیرے حکم سے مانگا ہے، میں تجھ سے تیری ذات کی حرمت، تیری مخلوقات وبیت الحرم کے رہنے والوں کے حق کا واسطہ دے کر دعا مانگتا ہوں کہ تو مجھے دنیا سے اس وقت تک نہ اٹھا،جب تک کہ مشرق و مغرب پر میری حکومت نہ ہو جائے، اوراس میں جو شخص رخنہ اندازی کرے، اس کا سر نہ قلم کردوں، جب یہ لوگ دعا مانگ چکے تو وہ بادہ حق کا سرشار اٹھا، جس کے نزدیک دنیاوی طمطراق کی حقیقت سراب سے زیادہ نہ تھی اوراس کی زبان سے یہ الفاظ نکلے کہ تو رحمن ورحیم ہے، میں تیری اس رحمت کا واسطہ دیکر دعا کرتا ہوں جو تیرے غضب پر غالب ہے کہ تو مجھے آخرت میں رسوانہ کر اوراُس عالم میں مجھے جنت عطا فرما۔ [160] براء روایت کرتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ ابن عمرؓ کی لاعلمی میں ان کے پیچھے پیچھے جارہا تھا وہ چپکے چپکے کہتے جاتے تھے کہ لوگ کندھوں پر تلواریں رکھے آپس میں کٹے مرتے ہیں اور مجھ سے کہتے ہیں کہ عبد اللہ ابن عمرؓ ہاتھ لاؤ بیعت کریں۔ [161] عموماً پیٹ بھر کھانا نہ کھاتے تھے، ایک شخص چورن لایا، آپ نے پوچھا، کیا ہے؟ اُس نے کہا اگر کھانا ہضم نہ ہو تو اس سے ہضم ہو جاتا ہے، فرمایا، اس کی مجھ کو کیا ضرورت ہے میں نے تو مہینوں سے شکم سیر ہوکر کھانا ہی نہیں کھایا۔ [162] [7][163]

مشتبہات سے اجتناب

[ترمیم]

شدت و ورع کی بنا پر ہمیشہ مشتبہ چیزوں سے پرہیز فرماتے تھے،مروان نے اپنے زمانہ میں میل کے نشان کے پتھر نصب کرائے تھے، ابن عمرؓ ادھر رخ کرکے نماز پڑھنا مکروہ سمجھتے تھے، [164] کہ اس میں پتھر کی پرستش کا خیالی شائبہ ہے اس طرح حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ اور دوسرے صحابہؓ ہمیشہ عہدِ رسالت اور اس کے بعد خلفائے اربعہؓ کے وقت تک کھیتوں کا لگان لیا کرتے تھے، لیکن ایک مرتبہ رافع بن خدیجؓ نے بیان کیا کہ آنحضرت نے کھیتوں کے کرایہ سے منع کیا ہے،حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ نے سناتو جاکر ان سے تصدیق چاہی، رافع بن خدیج نے کہا کہ ہاں منع کیا ہے کہا تم کو معلوم ہے کہ عہد نبوی ﷺ میں زمین پر لگان لیا جاتا تھا، اگرچہ ان کو اس کا یقین نہ تھا کہ آنحضرت نے ایسا حکم دیا ہوگا، مگر محض اس احتمال کی بنا پر لگان لینا چھوڑ دیا کہ شاید بعد میں آنحضرت نے ممانعت فرما دی ہو اور مجھے علم نہ ہوا ہو۔ [165] ککڑی اور خربوزہ صرف اس لیے نہ کھاتے تھے کہ اس میں گندی چیزوں کی کھاد دی جاتی ہے۔ [166] ایک مرتبہ کسی نے کھجور کا سرکہ ہدیہ بھیجا،پوچھا کیا چیز ہے، معلوم ہوا کھجور کا سرکہ ہے انھوں نے اس خیال سے پھکوا دیا کہ سکرنہ پیدا ہو گیا ہو۔ [167] اگرچہ غنا کا مسئلہ مختلف فیہ ہے تاہم احتیاط کا اقتضا یہی ہے کہ اس سے احتراز کیا جائے؛ چنانچہ جب اپنے صاحبزادے کو گنگناتے ہوئے سنتے تو تنبیہ فرماتے ۔ [168] اگر کسی چیز میں صدقہ کے شائبہ کا بھی وہم ہوتا تو اس کو استعمال نہ کرتے ایک دن بازار گئے وہاں ایک دودھاری بکری بک رہی تھی، اپنے غلام سے کہا لے لو، اس نے اپنے دام سے خرید لیا، آپ دودھ سے افطار کرنا پسند کرتے تھے، اس لیے افطار کے وقت اسی بکری کا دودھ پیش کیا گیا، فرمایا کہ یہ دودھ بکری کا ہے اور بکری غلام کی خریدی ہوئی ہے اور غلام صدقہ کا ہے اس لیے اس کو لے جاؤ، مجھ کو اس کی حاجت نہیں ہے۔ [169] ایک مرتبہ کہیں دعوت میں تشریف لے گئے، وہاں پھولدار فرش بچھا ہوا تھا،کھانا چنا گیا تو پہلے ہاتھ بڑھایا،پھر کھینچ لیا اور فرمایا کہ دعوت قبول کرنا حق ہے، مگر میں روزہ سے ہوں ،یہ عذر پھولدار فرش کی وجہ سے تھا۔ [170] ایک مرتبہ احرام کی حالت میں سردی معلوم ہوئی ،فرمایا مجھ کو لحاف اُڑھا دو، آنکھ کھلی تو چادر کی لحاف پھول بوٹوں پر نظر پڑی جو ابریشم سے کڑھے ہوئے تھے، فرمایا اگر اس میں یہ چیز نہ ہوتی تو استعمال میں کوئی مضائقہ نہ تھا۔ [171] [172]

صدقات و خیرات

[ترمیم]

صدقہ وخیرات حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ کا نمایاں وصف تھا، ایک ایک نشست میں بیس بیس ہزار تقسیم کردیتے تھے، دودو تین تین ہزار کی رقمیں تو عموماً خیرات کیا کرتے تھے، [173] بسا اوقات یکمشت 30 ہزار کی رقم خدا کی راہ میں لٹا دی،[174] قرآن پاک میں نیکوکاری کے لیے محبوب چیز خدا کی راہ میں دینے کی شرط ہے، "لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ" حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ اس آیت کی عملی تفسیر تھے، آپ ہمیشہ اپنی پسندیدہ چیزوں کو راہِ خدا میں دے دیتے تھے،چنانچہ جو غلام آپ کو پسند ہوتا اس کو راہ خدا میں آزاد کر دیتے اور آپ کی نظر میں وہ غلام پسندیدہ ہوتا، جو عبادت گزار ہوتا، غلام اس راز کو سمجھ گئے تھے، اس لیے وہ مسجدوں کے ہورہتے ، حضرت ابن عمرؓ اس کے ذوق عبادت کو دیکھ کر خوش ہوتے اور آزاد کر دیتے ،آپ کے احباب مشورہ دیتے کہ آپ کے غلام آپ کو دھوکا دیتے ہیں اور صرف آزادی کے لیے یہ دینداری دکھاتے ہیں، آپ فرماتے ،"من خد عناباللہ انخد عنا لہ" جو شخص ہم کو خدا کے ذریعہ سے دھوکا دیتا ہے ہم اس کا دھوکا کھا جاتے ہیں، [175] آپ کو ایک لونڈی بہت محبوب تھی، اس کو راہ خدا میں آزاد کرکے اپنے ایک غلام کے ساتھ بیاہ دیا، اس سے ایک لڑکا پیدا ہوا، لڑکے کو آپ چومتے اور فرماتے کہ اس سے کسی کی بوآتی ہے، [176] اسی طریقہ سے ایک دوسری چہیتی لونڈی کو آزاد کر دیا اور فرمایا "لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ" [177] آپ اس کثرت سے غلام آزاد کرتے تھے کہ آپ کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد ایک ہزار سے متجاوز ہو گئی تھی، [178] ایک مرتبہ انھوں نے نہایت عمدہ اونٹ خریدا اورسوار ہوکر حج کو چلے، اتفاق سے اس کی چال بہت پسند آئی، فوراً اتر پڑے اور حکم دیا کہ سامان اتار لو اور اس کو قربانی کے جانوروں میں داخل کردو۔ [179] [180]

مسکین نوازی

[ترمیم]

مسکین نوازی عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نمایاں وصف تھا، خود بھوکے رہتے، لیکن مسکینوں کی شکم سیری کرتے ،عموماً بغیر مسکین کے کھانا نہ کھاتے تھے۔ آپ کی اہلیہ آپ کی غیر معمولی فیاضی سے بہت نالاں رہتی تھیں اور شکایت کیا کرتی تھیں کہ جو کھانا میں ان کے لیے پکاتی ہوں وہ کسی مسکین کو بلاکر کھلا دیتے ہیں، فقراء اس کو سمجھ گئے تھے اس لیے مسجد کے سامنے آپ کی گذرگاہ پر آکر بیٹھتے تھے، جب آپ مسجد سے نکلتے تو ان کو لیتے آتے تھے بیوی نے عاجز ہو کر ایک مرتبہ کھانا فقراء کے گھروں پر بھجوادیا اور کہلا بھیجا کہ راستہ میں نہ بیٹھا کریں اور اگر وہ بلائیں تو بھی نہ آئیں عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد سے واپس ہوکر حسب معمول گھر آئے اور غصہ میں حکم دیا کہ فلاں فلاں محتاجوں کو کھانا بھجوا دو،کیا تم چاہتی ہو کہ میں رات فاقہ میں بسر کرو ں؛چنانچہ بیوی کے اس طرز عمل پر رات کو کھانا نہ کھایا۔ [181] اگر دستر خوان پر کسی فقیر کی صدا کانوں میں پہنچ جاتی تو اپنے حصہ کا کھانا اس کو اٹھوا دیتے اور خود روزہ سے دن گزار دیتے ،ایک مرتبہ مچھلی کھانے کی خواہش ہوئی، آپ کی بیوی صفیہ نے بڑے اہتمام سے لذیذ مچھلی تیار کی، ابھی دسترخوان چنا ہی گیا تھا کہ ایک فقیر نے صدا لگائی فرمایا فقیر کو دیدو،بیوی کو عذر ہوا، پھر دوبارہ فرمایا کہ نہیں دیدو مجھ کو یہی پسند ہے، لیکن چونکہ بیوی نے آپ کی فرمائش سے پکائی تھی، اس لیے اس کو نہ دیا اور کھانے کے لیے انگور کے چند دانے خرید ے گئے، ایک سائل آیا، حکم دیا انگور دیدو لوگوں نے عرض کیا آپ اس کو کھا لیجئے اس کو دوسرے دیدیے جائیں گے فرمایا نہیں یہی دیدو مجبوراً وہی دینے پڑے اور دے کر پھر اس سے خریدے گئے، [182]آپ کا یہ سلوک ان ہی لوگوں کے ساتھ تھا جو درحقیقت اس کے مستحق ہوتے تھے؛ چنانچہ جب دسترخوان پر بیٹھتے اور کوئی خوش پوش اور مر فحہ الحال دکھائی پڑتا، تونہ بلاتے ،لیکن آپ کے بھائی اور لڑکے وغیرہ اس کو بیٹھا لیتے اور اگر کوئی خستہ حال اور مسکین نظر آتا ،تو اس کو فورا ًبلاتے اور فرماتے یہ لوگ شکم سیر اشخاص کو بلاتے ہیں اور جو بھوکے اور کھانے کے حاجتمند ہوتے ہیں ان کو چھوڑ دیتے ہیں۔ [183] [184]

فیاضی اور سیر چشمی

[ترمیم]

فقراء و مساکین کے علاوہ آپ کے ہم چشم اور ہم رتبہ اشخاص پر بھی آپ کا ابر کرم رہتا تھا، اگر کبھی بھولے سے کوئی چیز کسی کے پاس چلی جاتی تو پھر اس کو واپس نہ لیتے تھے، عطا کہتے ہیں کہ ایک دفعہ عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ سے دو ہزار درہم قرض لیے، جب ادا کیے تو دو سو زیادہ آگئے میں نے واپس کرنا چاہا تو کہا تمھیں لے لو، [185] اسی طریقہ سے ایک مرتبہ ایک اور رقم کسی سے قرض لی جب واپس کی تو مقروضہ درہم سے زیادہ کھرے درہم ادا کیے، قرض خواہ نے کہا یہ درہم میرے درہموں سے زیادہ کھرے ہیں، فرمایا عمدا ایسا کیا تھا، [186] آپ کے غلام نافع کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ بیس ہزار درہم ایک وقت تقسیم کر دئے ، تقسیم ہو جانے کے بعد جو لوگ آئے ان کو ان لوگوں سے قرض لے کر دیتے،[187] جن کو پہلے دے چکے تھے، اقامت کی حالت میں بھی اکثر روزہ رکھتے تھے،لیکن اگر کوئی مہمان آجاتا تو افطار کرتے کہ مہمان کی موجودگی میں روزہ رکھنا فیاضی سے بعید ہے، [188] جہاں مہمان جاتے 3 دن کی مسنون مہمانی کے بعد اپنا سامان خود کرتے ،جب مکہ جاتے تو عبد اللہ بن خالد کے گھرانے میں اترتے ؛لیکن 3 دن کے بعد اپنی جملہ ضروریات بازار سے پوری کرتے تھے، [189] ایک مرتبہ کہیں جا رہے تھے، راستہ مین ایک اعرابی ملا، حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سلام کیا اور سواری کا گدھا اور سرکا عمامہ اتار کر اس کو دیدیا، ابن دینار ساتھ تھے، یہ فیاضی دیکھ کر بولے، خدا آپ کو صلاحیت دے یہ اعرابی تو معمولی چیزوں سے خوش ہو جاتے ہیں،یعنی ا تنی فیاضی کی ضرورت نہ تھی، فرمایا ان کے والد میرے والد کے دوست تھے، میں نے آنحضرت سے سنا ہے کہ سب سے بڑی نیکی اپنے باپ کے احباب کے ساتھ صلہ رحمی ہے۔ [190] [191]

استغنا

[ترمیم]

اس فیاضی کے ساتھ حد درجہ مستغنی المزاج واقعہ ہوئے تھے،کبھی کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہیں کیا، لوگ خدمت بھی کرنا چاہتے تو آپ قبول نہ کرتے ،عبد العزیز بن ہارون نے ایک مرتبہ لکھ بھیجا کہ آپ اپنی ضروریات کی اطلاع مجھ کو دیا کیجئے، ان کو جواب میں لکھ بھیجا کہ جن کی پرورش تمھارے ذمہ ہے ان کی امداد کرو اور اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے اوپر کے ہاتھ سے مراد دینے والا اور نیچے کے ہاتھ سے مراد لینے والا۔ [192] مگر اسی کے ساتھ کسی کا ہدیہ بھی واپس نہیں کرتے تھے، چنانچہ مختار اکثر مال ومتاع بھیجا کرتا تھا، آپ قبول کرلیتے اور فرماتے کہ میں کسی سے مانگتا نہیں، لیکن جو خدا دیتا ہے اس کو رد بھی نہیں کرتا، [193]آپ کی پھوپی رملہ نے دو سو دینار بھیجے، انھوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کرلیے، حضرت امیر معاویہؓ نے آپ کے سامنے ایک لاکھ کی رقم اس خیال سے پیش کرنی چاہی کہ آپ یزید کی خلافت پر راضی ہو جائیں،آپ نے فرمایا: میرا یمان اتنا سستا نہیں ہے ۔ [194] [195][196]

محبت نبوی ﷺ

[ترمیم]

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ان کا سرمایہ حیات اورجان حزین کی تسکین کا باعث تھی، آپ کی وفات کے بعد ایسے شکستہ دل ہوئے کہ اس کے بعد نہ کوئی مکان بنایا اورنہ باغ لگایا، [197] وفات نبوی کے بعد جب آپ کا ذکر آتاتو بے اختیار رو پڑتے، [198]جب سفر سے لوٹتے تو روضہ نبوی ﷺ پر حاضر ہوکر سلام کہتے، [199] ذات نبوی ﷺ کے ساتھ اس شیفتگی کا قدرتی نتیجہ یہ تھاکہ آلِ اطہار ؓ سے بھی وہی تعلق تھا، ایک مرتبہ ایک اعرابی نے مچھر کے خون کا کفارہ پوچھا، آپ نے پوچھا تم کون ہو اس نے کہا عراقی، فرمایا لوگو ذرا اس کو دیکھنا یہ شخص مجھ سے مچھر کے خون کا کفارہ پوچھتا ہے، حالانکہ ان لوگوں نے نبی کے جگر گوشہ کو شہید کیا ہے، جن کے متعلق آنحضرت فرماتے تھے کہ یہ دونوں میرے باغ دنیا کے دو پھول ہیں۔ [200] یہ محبت آلِ اطہارؓ کے ساتھ مخصوص نہ تھی ؛بلکہ جس چیز کو بھی آنحضرت کے ساتھ کسی قسم کی نسبت ہوتی، اس سے آپ کو وہی شغف تھا،آنحضرت ﷺ کبھی ایک درخت کے نیچے اترے تھے،عبد اللہ ابن عمرؓ ہمیشہ اس کو پانی دیتے تھے کہ خشک نہ ہو جائے ،[201]مدینۃ الرسول ﷺ سے اس درجہ محبت تھی کہ تنگی کی حالت میں بھی وہاں سے نکلنا گوارا نہ تھا، ایک مرتبہ آپ کے ایک غلام نے تنگ حالی کی شکایت کی اور مدینہ سے جانے کی اجازت چاہی ،اس سے فرمایا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص مدینہ کے مصائب پر صبر کرے گا قیامت میں میں اس کا شفیع ہوں گا۔ [202] [203]

اختلاف اُمت کا لحاظ

[ترمیم]

حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ اس کام سے جس میں امت مسلمہ کے اختلاف و افتراق کا ادنی خطرہ بھی نکلتا ہو احتراز فرماتے تھے ، ان کی حق پرستی مسلم ہے، لیکن امت کے ضرر کے خیال سے بعض مواقع پر خاموش ہوجاتے تھے ،فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ امیر معاویہؓ نے دعویٰ سے کہا کہ خلافت کا ہم سے زیادہ حقدار کون ہے، میرے دل میں خیال آیا کہ جواب دوں کہ تم سے زیادہ وہ حقدار ہے جس نے تم کو اورتمہارے باپ کو اس پر مارا تھا،مگر فساد کے خیال سے خاموش رہا، [204]اختلاف امت سے بچنے کا ادنی ادنی باتوں میں خیال رکھتے تھے،منی میں آنحضرت عصر کی نماز میں قصر کرتے تھے، آپ کے بعد حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کا بھی یہی طریقہ رہا، حضرت عثمانؓ بھی ابتدا میں دوہی رکعت پڑھتے تھے، مگر کچھ دنوں کے بعد پوری چار پڑھنے لگے، حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ بھی تفریق کے خیال سے امام کے پیچھے چار پڑھتے،لیکن اکیلے ہوتے تو قصر کرتے اور فرماتے کہ "الخلاف منکر" [205] اختلاف ناپسندیدہ ہے،فرمایا کرتے تھے کہ اگر میری خلافت پر دو شخص کے علاوہ پوری امت محمدی ﷺ متفق ہو جائے تو بھی میں ان دوسے نہ لڑوں گا، لوگوں کو نصیحت کرتے کہ ہم دوسروں سے اس لیے لڑتے تھے کہ دین فساد کا ذریعہ نہ بنے اور خالص خدا کے لیے ہو جائے اور تم لوگ اس سے لڑتے ہو کہ دین غیر خدا کا ہو کر فتنہ و فساد کی بنیاد بن جائے، ایک شخص نے کہا کہ آپ سے زیادہ فتنہ پردراز امت محمد میں کوئی نہیں، فرمایا یہ کیسے خدا کی قسم نہ میں نے ان کا خون بہایا، نہ ان کی جماعت میں اختلاف ڈالا، نہ ان کی مجتمع قوت منتشر کی، اس نے برسبیل مبالغہ کہا کہ اگر آپ چاہتے تو دو شخص بھی آپ کی خلافت میں اختلاف نہ کرتے ،آپ نے فرمایا میں اس کو ناپسند کرتا ہوں کہ ایک شخص کہے کہ میں تمھاری خلافت سے راضی ہوں، دوسرا کہے کہ میں راضی نہیں ہوں ،براء روایت کرتے ہیں کہ میں ایک دن عبد اللہ بن عمرؓ کی لاعلمی میں ان کے پیچھے پیچھے جارہا تھا وہ فرماتے جاتے تھے کہ لوگ تلواریں لیے آپس میں کٹے مرتے ہیں، پھر کہتے ہیں کہ عبد اللہ ابن عمرؓ بیت کے لیے ہاتھ بڑھاؤ ۔ [206] اسی اختلاف امت سے بچنے کے لیے ہر خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کرلیتے تھے کہ مبادانکار کسی نئے فتنہ کی بنیاد نہ بن جائے، چنانچہ فتنہ کے زمانہ میں ہر امیر کے پیچھے نماز پڑھ لیتے اور زکوٰۃ ادا کر دیتے خود فرماتے تھے کہ میں دورِ فتن میں جنگ وجدل سے الگ رہتا ہوں اور ہر غالب کے پیچھے نماز پڑھ لیتا ہوں،[207] مگر یہ اطاعت اسی حد تک تھی جہاں تک مذہب اجازت دیتا اور اگر اس سے مذہبی پابندی میں کوئی خلل پڑتا، تو اطاعت ضروری نہیں سمجھتے تھے، چنانچہ ابتداً حجاج کے پیچھے نماز پڑھا کرتے تھے، لیکن جب اس نے نماز میں تاخیر شروع کی تو اس کے پیچھے نماز پڑھنی چھوڑ دی ؛بلکہ مکہ چھوڑ کر مدینہ چلے آئے۔ [208] اس احتیاط کی بنا پر حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت میں فتنہ وفساد اور افتراق کا جو طوفان اٹھا،جس میں بہت کم ایسے مسلمان تھے،جن کا ہاتھ ایک دوسرے کے خون سے رنگین نہ ہوا ہو، عبد اللہ ابن عمرؓ اپنے کمالِ احتیاط کے باعث اس ہنگامہ عام میں بھی بچے رہے ،چنانچہ محمد کہتے ہیں کہ اگر ہم میں سے کوئی شخص مستثنی کیا جا سکتا ہے تو وہ عبد اللہ بن عمر ہیں۔[195]

اظہارِحق میں جرأت و بیباکی

[ترمیم]

اس مصالحانہ اور مرنج و مرنجان زندگی کے باوجود دینی اور مذہبی معاملات میں ان کی حق گوئی مصالح امت کے خیال پر غالب آجاتی تھی ،چنانچہ بنی امیہ کے جابرانہ طرز عمل پر نہایت سختی سے نکتہ چینی کرتے تھےحجاج بن یوسف کے مظالم سے دنیائے اسلام تنگ آگئی تھی ؛مگر کسی کو دم مارنے کی مجال نہ تھی؛ لیکن حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ بے خوف وخطر اس کے منہ پر کہہ دیتے ،ایک مرتبہ حجاج خطبہ دے رہا تھا، حضرت ابن عمرؓ بھی تھے،آپ نے فرمایا یہ خدا کا دشمن ہے اس نے حرام الہی کو تباہ کیا، بیت اللہ کو تباہ کیا،اولیا اللہ کو قتل کیا،[209] ایک مرتبہ حجاج نے دوران خطبہ میں کہا کہ عبد اللہ بن زبیرؓ نے کلام اللہ میں تغیر و تبدل کیا ہے،حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ نے جھلا کر فرمایا کہ تو جھوٹ بکتا ہے نہ ابن زبیرؓ میں اتنی طاقت ہے اور نہ تیری یہ مجال ہے، [210] مرض الموت میں جب حجاج عیادت کو آیا اور انجان بن کر کہا کاش زخمی کرنے والے کا مجھ کو علم ہوجاتا تو بگڑ کر کہا کہ وہ تمھارا نیزہ تھا حجاج نے پوچھا یہ کیسے کہا تم نے ایام حج میں لوگوں کو مسلح کیا اور حرم محترم میں ہتھیاروں کو داخل کیا،پھر پوچھتے ہو،کس نے زخم کیا، [211] ایک مرتبہ حجاج مسجد میں خطبہ دے رہا تھا، اس کو اس قدر طول دیاکہ عصر کا وقت آخر ہو گیا آپ نے آواز دی کہ نماز کا وقت جارہا ہے،تقریر ختم کرو اس نے نہ سنا، دوبارہ پھر کہا اس مرتبہ بھی اس نے خیال نہ کیا تیسری مرتبہ پھر کہا تین مرتبہ کہنے کے بعد حاضرین سے فرمایا،اگر میں اٹھ جاؤں تو تم بھی اٹھ جاؤ گے لوگوں نے کہاہاں چنانچہ یہ کہہ کر کہ معلوم ہوتا ہے کہ تم کو نماز کی ضرورت نہیں ہے اٹھ گئے اس کے بعد حجاج منبر سے اتر آیا اور نماز پڑھی اور عبد اللہ ابن عمرؓ سے پوچھا کہ تم نے ایسا کیوں کیا ،کہا کہ ہم لوگ نماز کے لیے مسجد میں آتے ہیں، اس لیے جس وقت نماز کا وقت آ جائے،اس وقت فورا ًتم کو نماز پڑھنی چاہیے، نماز کے بعد جس قدر تمھارا دل چاہے،بکا کرو،[212] اسی وجہ سے خلفائے بنوا میہ اپنی رعونت کے باوجود ان کا بہت لحاظ کرتے تھے، آنحضرت کے وقت سے خط لکھنے کا یہ طریقہ تھا کہ کاتب بسم اللہ کے بعد اپنا نام لکھتا،پھر مکتوب الیہ کا نام لکھتا کہ منجانب فلاں ابی فلاں لیکن خلفائے امیہ نے جہاں اور بدعات رائج کیں وہاں اس طریقہ کو بھی بدل دیا اور اظہار ترفع کے لیے یہ طریقہ رائج کیا کہ خط میں پہلے خلیفہ کا نام لکھا جائے پھر بھیجنے والا اپنا نام تحریر کرے عبد اللہ ابن عمرؓ کی خود اری اس کو گوارا نہیں کرسکتی تھی، اس لیے انھوں نے جو بیعت نامہ لکھا،اس میں اسی سابق طریقہ پر"من عبد اللہ بن عمر الی عبد اللہ بن مروان" لکھا، اس تحریر کو دیکھ کر درباریوں نے کہا کہ عبد اللہ ابن عمرؓ نے حضور سے پہلے اپنا نام لکھا ہے،عبدالملک بن مروان نے کہا کہ ابو عبد الرحمن کی ذات سے اتنا بھی بہت غنیمت ہے۔ [213] ،[214]

مساوات

[ترمیم]

اسلام نے ان تمام امتیازات کو جن سے ایک انسان کی تحقیر اور دوسرے کی بیجا عظمت ظاہر ہو مٹادیا،ابن عمرؓ اس مساوات کا عملی نمونہ تھے، وہ ان تمام امتیازات کو جن سے مساوات میں فرق آتا ہو ناپسند فرماتے تھے،چنانچہ جہاں لوگ آپ کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوتے ہوں نہ بیٹھتے، [215] اپنے غلاموں کو بھی مساوات کا درجہ دیدیا تھا اوران کو عزت نفس کی تعلیم دیتے تھے،دستور تھا کہ غلام تحریر میں پہلے آقا کا نام لکھتا،پھر اپنا ،انھوں نے اپنے غلاموں کو ہدایت کردی کہ جب مجھ کو خط لکھو تو پہلے اپنا نام لکھو، [216] غلاموں کو دسترخوان پر ساتھ بٹھاتے ایک مرتبہ دسترخوان بچھا ہوا تھا، ادھر سے کسی کا غلام گذرا تو اس کوبھی بلا کر ساتھ بٹھایا، [217] غلاموں کے کھانے پینے کا خیال بال بچوں کی طرح رکھتے تھے،ایک مرتبہ ان لوگوں کے کھانے میں تاخیر ہو گئی ،خانساماں سے پوچھا غلاموں کو کھانا کھلادیا، اس نے نفی میں جواب دیا برہم ہوکر فرمایا جاؤ ابھی کھلادو، انسان کے لیے یہ سب سے بڑا گناہ ہے کہ اپنے غلاموں کے خور و نوش کا خیال نہ رکھے، [218] غلاموں کو نہ کبھی برابھلا کہتے تھے اورنہ کبھی ان کو مارپیٹ کرتے تھے،اگر کبھی غصہ کی حالت میں ایسا کوئی فعل سرزد ہوجاتا تو اس کو کفارہ کے طور پر آزاد کردیتے ،سالم کہتے ہیں کہ ابن عمرؓنے ایک مرتبہ کے علاوہ کبھی کسی غلام کو لعنت ملامت نہیں کی،ایک مرتبہ غصہ میں الع کہنے پائے تھے کہ زبان روک لی اور فرمایا میں ایسی بات زبان سے نکال رہا ہوں جو نہ نکالنی چاہیے ،ایک مرتبہ ایک غلام کو کسی بات پر ماربیٹھے،مارنے کے بعد اس قدر متاثر ہوئے کہ اس کو آزاد کر دیا۔ [219]

تواضع وانکسار

[ترمیم]

اس مساوات کا دوسرا پہلو انکسار و تواضع ہے،جب تک یہ صفت نہ ہوگی،اس وقت تک مساوات کاجذبہ نہیں پیدا ہو سکتا، ابن عمرؓ میں یہ صفات بھی بدرجہ اتم موجود تھیں، اپنی تعریف سننا خود پرستی کا پہلا زینہ ہے،ابن عمرؓ اپنی تعریف سننا سخت ناپسند کرتے تھے،ایک شخص ان کی تعریف کررہا تھا، انھوں نے اس کے منہ میں مٹی جھونک دی اورکہا آنحضرت نے فرمایا ہے کہ مداحوں کے منہ میں خاک ڈالا کرو،[220] اپنے لیے معمولی انسانوں سے زیادہ شرف گوارانہ کرتے تھے،ایک مرتبہ کسی نے آپ سے کہا تم سبط ہو تم وسط ہو فرمایا: سبحان اللہ سبط بنی اسرائیل تھے اور امت وسط پوری امتِ محمد یہ ہے،ہم تو مضر کے درمیانی لوگ ہیں، اس سے زیادہ اگر کوئی رتبہ دیتا ہے تو جھوٹا ہے،بلا امتیاز ہر کس وناکس کو سلام کرتے ،بلکہ اسی ارادہ سے گھر سے نکلتے تھے،طفیل بن کعب جو روازانہ صبح و شام ان کے ساتھ بازار جایا کرتے تھے، بیان کرتے تھے کہ ابن عمرؓ بلا امتیاز تاجر مسکین اور خستہ حال سب کو سلام کرتے تھے،ایک دن مین نے ان سے پوچھا آپ بازار کیوں جاتے ہیں،حالانکہ نہ خرید و فروخت کرتے ہیں،نہ کسی جگہ بیٹھ تے ہیں،فرمایا صرف لوگوں کو سلام کرنے کی غرض سے [221] اتفاق سے اگر کسی کو سلام کرنا بھول جاتے تو پلٹ کر سلام کرتے،[222] تواضع کا ایک مظہر حلم بھی ہے،ابن عمرؓ تلخ سے تلخ باتیں سن کر پی جاتے تھے،ایک مرتبہ ایک شخص نے آپ کو پیہم گالیاں دینی شروع کیں،آپ نے صرف اس قدر جواب دیا کہ میں اورمیرے بھائی عالی نسب ہیں،پھر خاموش ہو گئے۔ [223] [224]

ہر دلعزیزی

[ترمیم]

اس مساوات ،تواضع اور علم کا یہ نتیجہ تھا کہ عام طور پر لوگوں میں آپ کو محبوبیت حاصل تھی، مجاہد کہتے ہیں کہ ایک دن میں ابن عمرؓ کے ساتھ نکلا، لوگ بکثرت ان کو سلام کر رہے تھے ،انھوں نے مجھ سے مخاطب ہوکر کہا کہ لوگ مجھ سے اس قدر محبت کرتے ہیں کہ اگرچاندی سونے کے عوض بھی محبت خریدنا چاہوں تو اس سے زیادہ نہیں مل سکتی۔

سادگی

[ترمیم]

ابن عمرؓ کی تصویر ِحیات تکلفات کے آب ورنگ سے یکسر پاک تھی،گو آپ بہت فارغ البال تھے اوپر گذرچکا ہے؛کہ ،20,20 ہزار ایک ایک نشست میں لوگوں کو دے ڈالتے تھے ؛لیکن خود ان کی زندگی یہ تھی کہ کل اثاث البیت کا جائزہ لیا،تو فرش اوربستر ملا کر بھی اس کی قیمت سو درم (یعنی تقریبا بیس روپے) تک نہیں پہنچی تھی، [225] فاروق اعظم کا بیٹا اور یہ مسکنت اللہ اکبر، ہر وہ چیز ناپسند تھی جس میں تنعم کی بو ہوتی،چنانچہ جمعہ کے علاوہ اور دنوں میں خوشبو کا استعمال بھی پسند خاطرنہ تھا، ایک مرتبہ کپڑے بخورات میں بسائے گئے، ان کو جمعہ کے دن استعمال کیا، پھر اتار کر رکھدیا، اتفاق سے دوسرے دن سفر پیش آیا، منزل کے قریب پہنچ کر کپڑے مانگے تو وہی جوڑا پیش کیا گیا، لیکن اس میں خوشبو کا اثر تھا اس لیے واپس کر دیا،[226] طریقہ ٔ طعام بھی نہایت سادھا تھا،اگر دسترخوان نہ پچھتا تو بڑے برتن میں کھانا رکھ دیا جاتا، سب مع اہل و عیال اس کے اطراف بیٹھ کر کھا لیتے، اس کش مکش میں کھانے والوں کو کبھی کھڑے ہوکر کھانا پڑتا۔ [227] دعوت وغیرہ میں عام طور پر معمول سے زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے،لیکن عبد اللہ ابن عمرؓ کا دسترخوان اس دن بھی تکلفات سے خالی ہوتا تھا، آپ کے غلام نافع کا بیان ہے کہ ایک دن ایک اونٹنی ذبح کی اور مجھ سے کہا مدینہ والوں کو مدعو کر آؤ، میں نے عرض کیا، کس چیز کی دعوت دیتے ہیں، روٹی تک تو ہے نہیں فرمایا، بس خدا تم کو بخشے گوشت موجود ہے،شوربہ موجود ہے جس کا دل چاہے گا،کھائے گا، جس کا دل نہ چاہے گا نہ کھائے گا۔ [228] اسی سادگی کی بنا پر تمام کام اپنے ہاتھ سے انجام دیتے تھے، مجاہد کا بیان ہے کہ عبد اللہ ابن عمرؓ جو کام خود کرسکتے تھے وہ دوسروں سے نہ کراتے تھے حتی کہ اونٹنی وغیرہ بٹھانے میں بھی دوسروں سے مدد نہ لیتے تھے، [229] گھر بھی اپنے ہاتھ سے بناتے تھے ،خود فرماتے تھے کہ میں نے بلا کسی اعانت کے آنحضرت ﷺ کے ساتھ اپنے ہاتھوں سے ایک گھر بنایا تھا۔[230]

ذریعہ ٔمعاش

[ترمیم]

حضرت عمرؓ بن خطاب کے زمانہ میں جب صحابہؓ کے وظیفے مقرر کیے گئے،تو ڈھائی ہزار ان کا وظیفہ بھی مقرر ہوا اور اسامہ بن زیدؓ کا 3 ہزار مقرر ہوا، انھوں نے اعتراض کیا کہ جب میں کسی چیز میں ان سے اور آپ ان کے والد سے پیچھے نہ رہے تو پھر اس تفریق کا کیا سبب ہے، حضرت عمرؓ بن خطاب نے فرمایا یہ سچ کہتے ہو، مگر آنحضرت ان کے والد کو تمھارے والد سے اور ان کو تم سے زیادہ محبوب رکھتے تھے، یہ جو اب سن کر وہ خاموش ہو گئے،[231] اس کے علاوہ لگانی زمینیں بھی تھیں۔ [232] [24]

لباس

[ترمیم]

لباس بہت معمولی پہنتے تھے، عموماً قمیص، ازار اور سیاہ عمامہ استعمال کرتے تھے، چپل پہنتے تھے،ازار نصف ساق تک ہوتا تھا،رنگوں میں زرد رنگ استعمال کرتے تھے کہ خود حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو بھی یہ رنگ پسند تھا، کبھی کبھی بیش قیمت لباس بھی پہن لیتے تھے، نافع کہتے ہیں کہ میں نے ان کو پانسو تک کی چادر اوڑھے دیکھا ہے،انگوٹھی بھی رکھتے تھے جس پر عبد اللہ بن عمرؓ کندہ تھا، مگر وہ صرف مہر وغیرہ کے وقت کام آتی تھی، پہنتے نہ تھے۔ [233]

حلیہ

[ترمیم]

شکل وصورت میں وہ اپنے والد بزرگوار عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بہت مشابہ تھے اور دراز قامت اور بھاری بھرکم تھے،رنگ گندمی تھا،کندھوں تک کاکلین تھیں،کبھی کبھی مانگ بھی نکالا کرتے تھے،داڑھی بقدر ایک مشت رکھتے تھے،موچھیں اس قدر گہری کترواتے تھے کہ لبوں کی سپیدی نمایاں ہو جاتی تھی زرد خضاب کرتے تھے۔ [234]

ازواج واولاد

[ترمیم]

حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعدد بیویاں تھیں جن سے بارہ لڑکے اور چار لڑکیاں تھیں ،ابوبکر، ابو عبیدہ، واقد، عبد اللہ، عمر، حفصہ اور سودہ، صفیہ بنت ابی عبیدہ کے بطن سے تھے، عبد الرحمن ام علقمہ بنت علقمہ کے بطن سے تھے، سالم، عبیداللہ، ابو سلمہ اور قلابہ مختلف لونڈیوں کے بطن سے تھے۔ [235]

مزید دیکھیے

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. ^ ا ب عنوان : Абдуллах ибн Омар
  2. عنوان : Абдуллах ибн Омар
  3. ص 142 - كتاب الطبقات الكبرى ط دار صادر- عبد الله بن عمر بن الخطاب - المكتبة ... — اخذ شدہ بتاریخ: 13 اپریل 2024
  4. (اسدالغابہ، ج3،ص229،اکمال ،ص605 وتذکرۃ الحفاظ،ج1،ص35)
  5. ^ ا ب پ ت الطبقات الكبرى لابن سعد - عبد الله بن عمر بن الخطاب (1) آرکائیو شدہ 2017-11-09 بذریعہ وے بیک مشین
  6. ^ ا ب پ أسد الغابة في معرفة الصحابة لابن الأثير الجزري - عمر بن الخطاب آرکائیو شدہ 2017-11-14 بذریعہ وے بیک مشین
  7. ^ ا ب پ ت تهذيب الكمال للمزي» عَبْد اللَّهِ بن عُمَرَ بن الخطاب القرشي العدوي آرکائیو شدہ 2016-11-29 بذریعہ وے بیک مشین
  8. ^ ا ب پ ت الإصابة في تمييز الصحابة لابن حجر العسقلاني - عبد الله بن عمر (1) آرکائیو شدہ 2017-11-25 بذریعہ وے بیک مشین
  9. (صحیح بخاری، باب اسلام عمرؓ)
  10. ^ ا ب پ سير أعلام النبلاء» ومن بقايا صغار الصحابة» عبد الله بن عمر (2) آرکائیو شدہ 2017-09-28 بذریعہ وے بیک مشین
  11. (ابن سعدج 4 ق اول تذکرہ ابن عمرؓ)
  12. (بخاری کتاب المغازی:2/588)
  13. (ایضا باب غزوۂ خندق)
  14. ( بخاری کتاب المغازی باب غزوۂ حدیبیہ)
  15. حلية الأولياء لأبي نعيم » عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ - رقم الحديث: 13476 آرکائیو شدہ 2017-08-10 بذریعہ وے بیک مشین
  16. (صحیح بخاری، باب غزوۂ خیبر:2/606)
  17. ( بخاری کتاب المغازی باب فتح مکہ )
  18. الطبقات الكبرى لابن سعد - عبد الله بن عمر بن الخطاب (18) آرکائیو شدہ 2017-11-09 بذریعہ وے بیک مشین
  19. (بخاری کتاب المغازی باب غزوۂ حنین)
  20. (بخاری کتاب المغازی غزوۂ طائف)
  21. ( بخاری جلد 2 باب حجۃ الوداع )
  22. الطبقات الكبرى لابن سعد - عبد الله بن عمر بن الخطاب (17) آرکائیو شدہ 2017-11-09 بذریعہ وے بیک مشین
  23. (بخاری کتاب المغازی غزوۂ تبوک)
  24. ^ ا ب الطبقات الكبرى لابن سعد - عبد الله بن عمر بن الخطاب (9) آرکائیو شدہ 2017-11-09 بذریعہ وے بیک مشین
  25. الطبقات الكبرى لابن سعد - عبد الله بن عمر بن الخطاب (12) آرکائیو شدہ 2017-07-20 بذریعہ وے بیک مشین
  26. (ابن سعد جزو4 قسم اول 118)
  27. (صحیح مسلم :2/108 مصر)
  28. سير أعلام النبلاء» ومن بقايا صغار الصحابة» عبد الله بن عمر (5) آرکائیو شدہ 2016-11-29 بذریعہ وے بیک مشین
  29. (طبری :2779)
  30. (ابن سعد جز4،قسم اول:18)
  31. (فتوح البلدان بلاذری:334)
  32. (ابن اثیر:3/84)
  33. (ابن سعد جز4، قسم اول:111)
  34. (فتح الباری :5/18)
  35. (مستدرک حاکم:3/554، طبع حیدرآباد)
  36. (استیعاب:1/381)
  37. (ابن اثیر :3/277)
  38. (صحیح بخاری کتاب التفسیر،وقاتلوھم حتی لاتکون فتنۃ)
  39. (ابن اثیر حالات حملہ قسطنطنیہ)
  40. الطبقات الكبرى لابن سعد - عبد الله بن عمر بن الخطاب (4) آرکائیو شدہ 2017-07-20 بذریعہ وے بیک مشین
  41. ( ابن سعد جز3، قسم اول تذکرہ ابن عمرؓ)
  42. (ایضاً:134 تھوڑے تغیر کے ساتھ یہ واقعہ بخاری:2/1053 میں بھی مذکور ہے)
  43. (ابن سعد قسم اول جز 4 :121)
  44. الطبقات الكبرى لابن سعد - عبد الله بن عمر بن الخطاب (7) آرکائیو شدہ 2017-11-09 بذریعہ وے بیک مشین
  45. (ابوالفداء:1/193 ،مطبوعہ مصر)
  46. (طبقات ابن سعد قسم اول جزء 4،تذکرہ ابن عمر)
  47. (صحیح بخاری کتاب التفسیر، باب حتی لاتکون فتنۃ)
  48. (مستدرک حاکم:3/887، حیدرآباد)
  49. الطبقات الكبرى لابن سعد - عبد الله بن عمر بن الخطاب (6) آرکائیو شدہ 2017-07-20 بذریعہ وے بیک مشین
  50. (بخاری جلد2 باب کیف یبایع الامام الناس)
  51. (بخاری :1/225)
  52. الطبقات الكبرى لابن سعد - عبد الله بن عمر بن الخطاب (13) آرکائیو شدہ 2017-11-09 بذریعہ وے بیک مشین
  53. (مستدرک حاکم:3/557)
  54. (تہذیب التہذیب:5/330)
  55. (ابن سعد تذکرہ ابن عمرؓ)
  56. (ابن خلکان:242/1، مطبوعہ مصر 1299ء، واسد الغابہ:230/3)
  57. (مستدرک حاکم :557/3)
  58. (ابن سعد قسم اول جز 4:136)
  59. ( ابن سعد قسم اول جز،4:138)
  60. الطبقات الكبرى لابن سعد - عبد الله بن عمر بن الخطاب (25) آرکائیو شدہ 2017-11-09 بذریعہ وے بیک مشین
  61. الطبقات الكبرى لابن سعد - عبد الله بن عمر بن الخطاب (15) آرکائیو شدہ 2017-11-09 بذریعہ وے بیک مشین
  62. (تلخیص مستدرک ،جلد3، وابن سعد تذکروابن عمر)
  63. الطبقات الكبرى لابن سعد - عبد الله بن عمر بن الخطاب (21) آرکائیو شدہ 2017-11-09 بذریعہ وے بیک مشین
  64. (تذکرہ الحفاظ:1/35، مطبوعہ دائرۃ المعارف حیدرآباد)
  65. الطبقات الكبرى لابن سعد - عبد الله بن عمر بن الخطاب (22) آرکائیو شدہ 2017-11-09 بذریعہ وے بیک مشین
  66. (مؤطا امام مالک مطبع احمدی دہلی)
  67. (ابراھیم)
  68. (بخاری وفتح الباری، کتاب التفسیر سورۂ ابراہیم وکتاب العلم باب الفہم)
  69. (موطا امام مالک مطبع احمدی دہلی باب ماجاء فی ولوک الشمس وغسق الیل)
  70. (التوبہ:34)
  71. (بخاری :1/188،کرزن پریس دہلی)
  72. (موطا امام مالک :109)
  73. (البقرہ: 193)
  74. (یہ دونوں روایتیں صحیح بخاری :648 /2،کتاب التفسیر باب قاتلو ہم حتی لاتکون فتنۃ میں ہیں)
  75. الطبقات الكبرى لابن سعد - عبد الله بن عمر بن الخطاب (23) آرکائیو شدہ 2017-11-09 بذریعہ وے بیک مشین
  76. (تہذیب الکمال :207، مطبوعہ مصر)
  77. ^ ا ب سير أعلام النبلاء» ومن بقايا صغار الصحابة» عبد الله بن عمر (3) آرکائیو شدہ 2016-11-29 بذریعہ وے بیک مشین
  78. الطبقات الكبرى لابن سعد - عبد الله بن عمر بن الخطاب (16) آرکائیو شدہ 2017-11-09 بذریعہ وے بیک مشین
  79. (اصابہ:109/4)
  80. (صحیح مسلم، کتاب صلوٰۃ المسافرین وقصرہا:1/275)
  81. (ایضاً:630،باب الرباء)
  82. الطبقات الكبرى لابن سعد - عبد الله بن عمر بن الخطاب (10) آرکائیو شدہ 2017-07-20 بذریعہ وے بیک مشین
  83. (استیعاب :381/1)
  84. (اسدالغابہ:3/228)
  85. (مسند احمد بن حنبل :2/154)
  86. (موطا امام مالک العمل فی الجلوس فی الصلوٰۃ: 30)
  87. (موطا امام مالک باب الامر بالدیہ :43)
  88. (مستدرک :3/561 ،وابن سعد تذکرہ ابن عمرؓ)
  89. (ابن سعد جز،4 قسم اول :106)
  90. (مسلم کتاب اللعان:592/1)
  91. ( تذکرۃ الحفاظ کرہ ابن عمرؓ)
  92. ( ابن سعد جز4،قسم اول :34)
  93. (موطا امام مالک العمل فی الجلوس فی الصلوٰۃ :30)
  94. سير أعلام النبلاء» ومن بقايا صغار الصحابة» عبد الله بن عمر (6) «» آرکائیو شدہ 2016-11-29 بذریعہ وے بیک مشین
  95. (تذکرۃ الحفاظ :34/1)
  96. (مستدرک حاکم: 3/56)
  97. ( اصابہ: 4 /109)
  98. (بخاری ،باب الفہم فی العلم:16/1)
  99. (مسند ابن حنبل: 2 /32)
  100. (اسد الغابہ:3/228)
  101. (تہذیب التہذیب :228/5،دائرۃ المعارف حیدرآباد)
  102. الطبقات الكبرى لابن سعد - عبد الله بن عمر بن الخطاب (24) آرکائیو شدہ 2017-07-20 بذریعہ وے بیک مشین
  103. ابن عساكر (1995)۔ تاريخ دمشق۔ دار الفكر۔ ج 31۔ ص 80
  104. ( تہذیب التہذیب تذکرہ ابن عمرؓ)
  105. ^ ا ب سير أعلام النبلاء» ومن بقايا صغار الصحابة» عبد الله بن عمر (1) آرکائیو شدہ 2017-06-23 بذریعہ وے بیک مشین
  106. (اعلام الموقعین ابن قیم:13/1)
  107. ( مقدمہ مسوی شرح موطا شاہ ولی اللہ صاحب )
  108. (تہذیب التہذیب:5/221)
  109. (اعلام الموقعین ابن قیم:13/1)
  110. (استیعاب:380/1)
  111. (ابن سعدق:125/4)
  112. (اصابہ:109/4)
  113. (تذکرہ الحفاظ :33/1)
  114. (موطا امام مالک، باب ماجاء فی صید البحر :184)
  115. (اعلام الموقعین :67/1)
  116. (ایضاً)
  117. (تذکرہ الحفاظ ذہبی:33/1)
  118. (اعلام الموقعین :67/1)
  119. ( تذکرہ الحفاظ:33/1)
  120. (مستدرک :560/1)
  121. (تذکرہ الحفاظ :33)
  122. الإصابة في تمييز الصحابة لابن حجر العسقلاني - عبد الله بن عمر (2) آرکائیو شدہ 2017-11-25 بذریعہ وے بیک مشین
  123. (موطا امام مالک :96،جدیۃ من افطرفی رمضان)
  124. (ایضاً:106 ، مالازکوٰۃ فیہ من الحلی اولتبروالبغبر)
  125. (موطا امام مالک ماجاء فی صید المعلمات :183)
  126. (ایضاً ماجا فی طلاق العبد : 209)
  127. (ایضا ماجاء فی الخلیۃ والبریہ واشاہ ذالک :200)
  128. (ایضا بیع الذیب والورق عیناً وتبراً :260)
  129. (زرقانی شرح موطا:141 مطبوعہ مصر)
  130. (ازالۃ الخفاء شاہ ولی اللہ مقصد دوم :191)
  131. ( اسد الغابہ ترجمہ ابن عمرؓ مطبوعہ مصر)
  132. لوا خطا ماڈیول:Cite_Q میں 684 سطر پر: attempt to call upvalue 'getPropOfProp' (a nil value)۔
  133. (اصابہ:106/4،مطبع شرفیہ مصر)
  134. (ابن سعد جز4، قسم اول :169)
  135. (اسد الغابہ:229/3)
  136. جزء المؤمل بن إيهاب» نعم الرجل عبد الله، لو كان يصلي من الليل آرکائیو شدہ 2016-11-29 بذریعہ وے بیک مشین
  137. (اصابہ:4/109)
  138. (طبقات ابن سعد تذکرہ ابن عمرؓ )
  139. (اصابہ:4/109)
  140. (صحیح بخاری ،کتاب المناسک باب اذا حضرالمعتمر)
  141. (ابن خلکان: :441/1)
  142. (ابوداؤد: جلد اول)
  143. (ابن سعد قسم اول جز 4:113)
  144. الإصابة في تمييز الصحابة لابن حجر العسقلاني - عبد الله بن عمر (3) آرکائیو شدہ 2017-11-25 بذریعہ وے بیک مشین
  145. (مستدرک حاکم:3/561)
  146. (اسد الغابہ:3/227)
  147. (اصابہ:4/109)
  148. (صحیح بخاری : 106 /1،مسلم جلد اول باب التصریس بذی الحلیفہ)
  149. (صحیح بخاری:2/778 ،باب اجابۃ الداعی فی العرس وغیرہا)
  150. (ابوداؤد جلد 1: 200)
  151. (بخاری : 1/28)
  152. (تہذیب التہذیب :5 /330)
  153. (تہذیب التہذیب : 5 / 330)
  154. (صحیح بخاری کتاب الرویا:2/1040)
  155. (مستدرک :3 /590)
  156. (مستدرک :3 /590)
  157. ( ابن سعد جز 4 ق اول:114)
  158. (ابن سعد قسم اول جز4:121)
  159. (استیعاب: 1/381)
  160. (ابن خلقان :1/442 ،مطبوعہ)
  161. (ابن سعد جز 4 ق 1:111)
  162. (ابن سعد جز 4 ق 1:110)
  163. الإصابة في تمييز الصحابة لابن حجر العسقلاني - عبد الله بن عمر (4) آرکائیو شدہ 2017-11-25 بذریعہ وے بیک مشین
  164. (ازالۃ الخفا:110 /2،بحوالہ مصنف ابن ابی بکر )
  165. (بخاری: 1/315 ،باب ماکان اصحاب النبی ﷺ یو اسی بعضہم بعضانی الزراعۃ ولاثمر)
  166. (ابن سعد :4 /120)
  167. (ابن سعد جزو4 ق 1 :122)
  168. (ابن سعد جزو4 ق 1 :114)
  169. (ابن سعد قسم اول جز 4 :118)
  170. (ابن سعد قسم اول جز 4 :127)
  171. (اصابہ تذکرہ ابن عمرؓ)
  172. الطبقات الكبرى لابن سعد - عبد الله بن عمر بن الخطاب (20) آرکائیو شدہ 2017-11-09 بذریعہ وے بیک مشین
  173. (اسد الغابہ:3/229)
  174. (ابن سعدق1 جز4:110)
  175. (ابن سعد جزء 4 ق اول :123)
  176. (اصابہ فی تمییز الصحابہ : 4/109)
  177. (ایضا :108)
  178. (تہذیب التہذیب: 5/330)
  179. ( بخاری جلد 2)
  180. الطبقات الكبرى لابن سعد - عبد الله بن عمر بن الخطاب (19) آرکائیو شدہ 2017-11-09 بذریعہ وے بیک مشین
  181. (ابن سعد جزو 4 قسم اول :132)
  182. (ایضا :116)
  183. (ایضاً)
  184. الإحكام في أصول الأحكام لابن حزم ج5 ص92 آرکائیو شدہ 2017-11-14 بذریعہ وے بیک مشین
  185. (ایضاً :122)
  186. (ایضاً)
  187. ( ابن سعد جزو4 ق1:109)
  188. (ابن سعد تذکرہ ابن عمرؓ)
  189. (ایضاً)
  190. (ایضاً)
  191. حلية الأولياء لأبي نعيم» عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ - رقم الحديث: 1124 آرکائیو شدہ 2016-11-29 بذریعہ وے بیک مشین
  192. (ایضاً)
  193. (ابن سعد جزواول ق1 :110)
  194. (ایضاً:134)
  195. ^ ا ب سير أعلام النبلاء» ومن بقايا صغار الصحابة» عبد الله بن عمر (4) آرکائیو شدہ 2016-11-29 بذریعہ وے بیک مشین
  196. الطبقات الكبرى لابن سعد - عبد الله بن عمر بن الخطاب (5) آرکائیو شدہ 2017-07-20 بذریعہ وے بیک مشین
  197. (ازالۃ الخفاء مقصد دوم :189)
  198. (ابن معتد تذکرہ ابن عمرؓ)
  199. (ایضاً)
  200. (بخاری : 2/886، باب رحمتہ الولد تقبیلہ و معانقہ)
  201. (اسد الغابہ جلد 3/227)
  202. (مسند احمد بن حببل :2/113)
  203. الطبقات الكبرى لابن سعد - عبد الله بن عمر بن الخطاب (14) آرکائیو شدہ 2017-11-09 بذریعہ وے بیک مشین
  204. (طبقات ابن سعد جز 4 ق1:134، وبخاری)
  205. (ابوداؤد:196/1، وسملم جلد 1 باب قصر الصلوۃ بمعنی)
  206. ( ابن سعد جزء 4 ق 1 :111)
  207. ( ایضاً:11)
  208. (طبقات ،جز4 ق1،تذکرہ ابن عمر)
  209. (تذکرہ الفاظ:32/1)
  210. (ابن سعد،جزو4،قسم اول،:135)
  211. (بخاری:132/1)
  212. (ابن سعد قسم 1،:117)
  213. (ابن سعد، قسم اول،:112)
  214. سير أعلام النبلاء» ومن بقايا صغار الصحابة» عبد الله بن عمر (7) آرکائیو شدہ 2016-11-29 بذریعہ وے بیک مشین
  215. (ابن سعدق،اجز4،:120)
  216. (اسد الغابہ:128/3)
  217. (مسلم:369 /1باب فضل النققہ علی العیال والمملوک)
  218. (اصابہ:108/4)
  219. الطبقات الكبرى لابن سعد - عبد الله بن عمر بن الخطاب (8) آرکائیو شدہ 2017-07-20 بذریعہ وے بیک مشین
  220. (مسند ابن حنبل:94/2)
  221. (موطائے امام مالک،:380،باب جامع السلام)
  222. (ابن سعد،جز4،ق 1،:132)
  223. (اصابہ ،جلد4،:108)
  224. الطبقات الكبرى لابن سعد - عبد الله بن عمر بن الخطاب (3) آرکائیو شدہ 2017-07-20 بذریعہ وے بیک مشین
  225. (ابن سعد،جز4،ق 1،:121)
  226. (ابن سعد،جز4،ق 1 :124)
  227. (ابن سعد،جز4،ق 1 :109)
  228. (ابن سعد،جز4،ق 1 :121)
  229. (بخاری:932/2)
  230. الطبقات الكبرى لابن سعد - عبد الله بن عمر بن الخطاب (2) آرکائیو شدہ 2017-11-09 بذریعہ وے بیک مشین
  231. (مستدرک حاکم:559/3)
  232. (بخاری،جلد2،باب کراء المزارع)
  233. (ابن سعد جز4،ق 1 تذکرہ ابن عمرؓ)
  234. (تذکرہ ابن عمرؓ)
  235. الطبقات الكبرى لابن سعد - عبد الله بن عمر بن الخطاب (11) آرکائیو شدہ 2017-07-20 بذریعہ وے بیک مشین