مندرجات کا رخ کریں

مالک بن انس

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

کام جاری صارف:Tahir697

امام   ویکی ڈیٹا پر (P511) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مالک بن انس
(عربی میں: مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ بْنِ مَالِكٍ بْنِ أَبِي عَامِرٍ الْأَصْبَحِيُّ الْحِمْيَرِيُّ الْمَدَنِيّ ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مالک بن انس، اسلامی خطاطی

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 711ء [1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ [3][4]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 795 عیسوی/179 ہجری (عمر 83-84)
مدینہ منورہ
مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن جنت البقیع   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
نسل عرب لوگ
اولاد فاطمہ بنت مالک بن انس   ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ نافع مولی ابن عمر [3][5]،  ابن شہاب زہری ،  جعفر الصادق [6]،  عبد الرحمٰن اوزاعی ،  ایوب سختیانی ،  محمد بن یحییٰ بن حبان ،  ابراہیم بن ابی عبلہ ،  ابن ہرمز ،  زید بن اسلم ،  عبد اللہ بن ذکوان ،  عبد الرحمن بن قاسم ،  ثور بن یزید ،  حمید طویل ،  ربیعہ بن فروخ ،  ہشام بن عروہ ،  یحییٰ بن سعید ،  عائشہ بنت سعد ،  عامر بن عبداللہ بن زبیر ،  محمد بن عبد الرحمن بن نوفل ،  نافع بن عبدالرحمن المدنی   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص محمد بن ادریس شافعی ،  محمد بن حسن شیبانی [7]،  سفیان ثوری ،  عبد الرحمٰن اوزاعی ،  احمد بن ابی طیبہ دارمی ،  حماد بن زید ،  اسماعیل ،  سفیان بن عیینہ ،  عبد اللہ ابن مبارک ،  ابن علیہ ،  عبد الرحمٰن بن قاسم عتقی ،  عبد الرحمن بن مہدی ،  عبد اللہ بن عمرو بن وہب ،  ولید بن مسلم ،  يحيىٰ القطان ،  ابوداؤد طیالسی ،  عبد اللہ بن یوسف تنیسی ،  قعنبی ،  فضل بن دکین ،  ہیثم بن جمیل ،  ہشام بن عبید اللہ رازی ،  محمد بن عیسی طباع ،  یحیی بن یحیی تمیمی ،  یحییٰ بن یحییٰ لیثی ،  ابو جعفر نفیلی ،  مصعب بن عبد اللہ زبیری ،  الواقدی ،  منصور بن ابی مزاحم ،  احمد بن نصر خزاعی   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ محدث ،  فقیہ ،  عالم   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی [8]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل فقہ ،  علم حدیث   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں موطاء امام مالک   ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مؤثر جعفر الصادق
ابو حنیفہ
ابو سہیل النافع
ہشام بن عروہ
ابن شہاب زہری
متاثر شافعی
بسم اللہ الرحمن الرحیم

بسلسلہ شرعی علوم
علم فقہ


مالک بن انس بن مالک بن عامر (93ھ - 179ھ) امام مالک بن انس بن مالک بن ابی عامر اصبحی ہیں اور ابو عامر اصبحی آپ کے دادا جلیل القدر صحابہ میں سے ہیں۔ سوائے غزوہ بدر کے اور سب غزوات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ تمام اہل سنت بالاتفاق " امام مالک" کو "شیخ الاسلام" مانتے ہیں۔ اہل سنت کی نظر میں وہ فقہ کے مستند ترین علما میں سے ایک ہیں۔ امام شافعی، جو نو برس تک امام مالک کے شاگرد رہے اور خود بھی ایک بہت بڑے عالم تھے، انھوں نے ایک بار کہا کہ "علما میں امام مالک ایک دمکتے ہوئے ستارے کی مانند ہیں"۔ فقہ مالکی اہل سنت کے ان چار مسلم مسالک میں سے ایک ہے جس کے پیروکار آج بھی بڑی تعداد میں ہیں۔جو شمالی افریقہ کے بیشتر علاقوں، الاندلس (مسلمانوں کے بے دخل ہونے تک)، مصر کا ایک وسیع حصہ اور شام، یمن، سوڈان، عراق اور خراسان کے کچھ حصوں کے سنی مسلمانوں کے لیے جیسا کہ افریقہ کے مسلمان ان کے لیے باقاعدہ معیار بن گیا ہے۔ [9] اور ممتاز صوفی سلاسل جن میں شاذلیہ اور تیجانیہ شامل ہیں۔ اسلامی تاریخ کی تاریخوں میں شاید امام مالک کا سب سے مشہور کارنامہ ہیں، تاہم، ان کی مؤطا کی تالیف، جو حدیث کی کتب میں سب سے پہلے مدون ہونے والی کتب میں سے ایک زندہ شاہکار ہے۔ امام مالک 93ھ میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور ایک ایسے گھر میں پرورش پائی جو علم حدیث، احادیث کی تحقیق اور صحابہ کرام کی خبروں اور ان کے فتاویٰ کو پڑھنے اور پڑھانے والا تھا۔امام صاحب نے اپنی زندگی کے آغاز میں قرآن پاک حفظ کیا، پھر حدیث نبوی حفظ کرنے اور فقہ سیکھنے کی طرف متوجہ ہوئے۔ مدینہ کے فقیہ ابن ہرمز نے آپ کے ساتھ تعلیم حاصل کرتے ہوئے سات سال گزارے، آپ نے علم حدیث اپنے وقت کے نامور محدثین نافع مولیٰ ابن عمر اور ابن شہاب زہری جیسوں سے سیکھا۔دین کے تمام علوم و فنون اور فتاویٰ کا مطالعہ مکمل ہونے کے بعد، اور جب ستر شیوخ نے ان کی گواہی دی کہ وہ اس کے لائق ہیں، تو آپ نے مسجد نبوی میں بیٹھ کر درس و تدریس اور فتویٰ کا کام جاری کیا۔ اور احادیث نبوی کا احترام اور ان کی تعظیم کا خصوصی خیال رکھتے تھے اور آپ عموماً نیا لباس زیب تن فرماتے تھے ۔آپ اپنے فتوے میں غلطی نہ کرنے کے لیے محتاط رہتے تھے اور اکثر کہتے تھے، "میں نہیں جانتا" اور وہ کہتے: "میں صرف انسان ہوں اور انسان سے غلطیاں ہوتی ہیں۔ لہٰذا میری رائے کو دیکھیں جو قرآن و سنت سے متفق ہو اسے لے لو اور جو قرآن و سنت سے متفق نہ ہو اسے چھوڑ دو۔سنہ 179ھ میں امام مالک 22 دن تک بیمار رہے پھر وفات پاگئے اور مدینہ منورہ کے امیر عبد اللہ بن محمد بن ابراہیم نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کو بقیع الغرقد میں دفن کر دیا گیا۔

نام و نسب

[ترمیم]

ابو عبداللہ مالک بن انس بن مالک بن ابی عامر، اور آپ کا نام نافع بن عمرو بن حارث بن غیمان بن خثیل بن عمرو بن حارث ذی اصبح بن مالک بن زید بن قیس بن صیفی بن حمیر الاصغر بن سبا الاصغر بن کعب کہف الظلم بن زید بن سہل بن عمرو بن قیس بن معاویہ بن جشم بن عبد شمس بن وائل بن غوث بن قطن بن عریب بن زہیر بن ایمن بن ہمیسع بن حمیر بن سبا۔[10][11][12][13][14][15][16][17]

آپ کی والدہ "عالیہ بنت شریک بن عبد الرحمٰن بن شریک ازدیہ اور ازد قحطانی عرب کے مشہور قبیلوں میں سے ایک ہے، وہ ازد بن غوث بن نبات بن مالک بن زید بن کہلان بن سبا بن یشجب بن یثرب بن قحطان اور ان کے شوہر انس کا تعلق یمن کے عربوں سے ہے۔[18][19]

ولادتِ باسعادت

[ترمیم]

امام صاحب کے سنہ ولادت کے متعلق تین اقوال ہیں: 92ھ ، 93ھ اور 94ھ لیکن خود امام صاحب نے اپنی تاریخ ولادت 93ھ بیان کی ہے، لہٰذا امام ذہبی نے اسی بات کو ترجیح دی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آپ کی والدہ تین سال تک حالت حمل میں رہی تھیں۔[20]

پرورش و نشو و نما

[ترمیم]

امام صاحب علم و فضل سے معمور گھرانے میں پیدا ہوئے، آپ کے دادا ابو عامر شرفِ صحابیت سے فیض یافتہ تھے۔ [21] جبکہ والد محترم کا شمار صحابہ کرام کے کبار تلامذہ میں ہوتا ہے۔ [22] آپ کے ایک بھائی بھی پختہ عالم دین تھے، امام صاحب بیان فرماتے ہیں:
’’ابن شہاب زہری کے ہم عمر میرے ایک بردار تھے۔ والد محترم نے ہمارا امتحان لینے کے لیے ایک دن سوال پوچھا۔ بھائی نے صحیح جواب دیا، جبکہ مجھ سے غلطی ہوئی، تو والد محترم نے فرمایا: تمھیں کبوتروں نے طلبِ علم سے غافل کر دیا ہے۔امام صاحب فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات بہت ناگوار گذری۔ میں نے علم حاصل کرنے کا عزم باندھا اور سات آٹھ سال تک ابن ہرمز کی شاگردی اختیار کیے رکھی۔ میں تھیلی میں کھجوریں ڈال کر اُن کی اولاد کو دے دیتا اور کہتا کہ اگر کوئی شیخ کے بارے میں پوچھے تو کہہ دیں کہ مشغول ہیں۔ ایک دفعہ شیخ نے خادمہ سے کہا کہ دیکھو دروازے پر کون ہے؟ اس نے دیکھا کہ مالک کھڑے ہیں، برہم ہو کر بولی: وہی أشقر (سفید بالوں اور آنکھوں والا) ہے اور تو کوئی نہیں۔ شیخ نے کہا: اس کو آنے دو، یہ لوگوں میں عالم کا درجہ رکھتے ہیں۔‘‘ [23] امام صاحب سترہ سال کی عمر میں نافع مولیٰ عمر، سعید المقبری، ابن شہاب زہری اور ابن دینار جیسے اجل علما سے شرفِ تلمذ حاصل کرچکے تھے۔ [24]

اور اکیس سال کی عمر میں باقاعدہ درس و تدریس اور مسند افتا سنبھال لی تھی اور پھر اطراف واکنافِ عالم سے علما و طلبہ آپ کے پاس حاضر ہونا شروع ہوئے۔ اور یہ سلسلہ ابو جعفر المنصور کی خلافت سے لے کر ہارون الرشید کے زمانہ تک عروج کو پہنچا اور آپ کی وفات تک جاری و ساری رہا۔ [25]

خود امام صاحب سے طلبِ علم یا درس و تدریس کے لیے سفر کرنا منقول نہیں۔ آپ ساری عمر مدینہ منورہ میں ہی مقیم رہے، سوائے حج کے مکہ مکرمہ کے علاوہ کہیں سفر نہیں کیا۔ بلکہ ایک بار خلیفہ مہدی نے آپ کو بغداد لے جانے کی خواہش ظاہر کی، آپ نے درج ذیل حدیثِ نبوی پڑھ کر یہ پیشکش ٹھکرادی:
«الْمَدِينَةُ خَيْرٌ لَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ»
’’کاش لوگ جان لیں کہ مدینہ ان کے لیے بہتر ہے۔‘‘ [26]

عادات و خصائل

[ترمیم]

امام صاحب طویل قد، بھاری جسم کے مالک تھے۔ سر اور داڑھی کے بال شدید سفید تھے، لباس بھی عمدہ سفید زیب تن کیا کرتے۔انگوٹھی بائیں ہاتھ میں پہنتے، خضاب وغیرہ استعمال نہ کرتے اور مونچھوں کو حلق کرنے کو عیب شمار کرتے تھے۔ آپ کی مجلس انواع واقسام کے قالین وغیرہ سے مزین انتہائی پرتکلف ہوتی۔ شور وغل اور قیل وقال کی ذرا گنجائش نہ تھی۔ سب ادب و احترام اور ہیبت سے خاموش رہتے۔سوال کرنے کی ہمت نہ تھی۔ باہر سے آنے والے اجنبی اور مہمان لوگ بعض دفعہ حدیث وغیرہ کے متعلق سوال کر لیا کرتے تھے۔ حبیب نامی آپ کے ایک کاتب تھے، وہی آپ کی کتابوں کی قراءت کرتے، باقی سب سماعت فرماتے ۔ اگر کہیں غلطی ہوتی تو امام صاحب خود ہی وضاحت فرماتے۔ [27] راوی بیان کرتے ہیں کہ امام صاحب درسِ حدیث کے لیے باوضو ہو کر بہترین لباس زیب تن کرکے، بالوں کو سنوار کر اور بہترین خوشبو لگا کر نکلتے اور فرماتے: یہ حدیثِ رسول ﷺ کی تعظیم و توقیر کا تقاضا ہے۔ اگر کوئی بآواز بلند بولتا تو یہ آیتِ مبارکہ پڑھتے:
﴿ لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ ﴾ اور فرماتے:
’’نبی کریم ﷺ کی حدیث کے پاس رفعِ صوت آپ ﷺ کے پاس رفعِ صوت کے مترادف ہے۔‘‘ [28]

شیوخ و اساتذہ اور تلامذہ

[ترمیم]

مدینہ میں رہنے سے امام مالک کو ابتدائی اسلام کے کچھ سب سے زیادہ سیکھنے والے ذہنوں تک رسائی فراہم حاصل ہوئی۔ آپ نے جوانی میں قرآن حفظ کیا، ابو سہیل نافع بن عبدالرحمٰن سے تلاوت سیکھی، جن سے آپ نے اپنا اعجاز بھی حاصل کیا یا دوسروں کو سکھانے کی سند اور اجازت بھی حاصل کی۔ انھوں نے ہشام بن عروہ اور ابن شہاب الزہری کے ساتھ ساتھ مشہور امام جعفر الصادق سمیت متعدد مشہور علما سے تعلیم حاصل کی۔امام مالک اور الزہری دونوں نافع مولیٰ ابن عمر، ممتاز تابعین صحابی رسول عبد اللہ ابن عمر کے آزاد کردہ غلام اور شاگرد تھے۔ ابو حنیفہ (حنفی سنی مذہب کے بانی) کے ساتھ، امام مالک نے اپنے وقت کے ایک معروف عالم امام جعفر سے بھی تعلیم حاصل کی، جنہیں شیعہ مسلمان اپنا امام مانتے ہیں۔ امام مالک امام شافعی کے استاد تھے، [29][30]جو امام احمد بن حنبل کے استاد تھے۔ امام صاحب اساتذہ و شیوخ کے انتخاب میں حد درجہ احتیاط کیا کرتے تھے۔ بہت سارے نیک اور صالح لوگوں کو صرف اس لیے چھوڑ دیا کرتے تھے کہ ان کی علمی قد وقامت امام صاحب کے ذوق و مزاج کے مطابق نہ ہوتی تھی۔ امام صاحب نے وقت کے جلیل القدر اور اکابر علما و محدثین سے ہی استفادہ کیا، جن میں سے چند مشاہیر کے نام یوں ہیں: نافع مولیٰ ابن عمر، سعید المقبري، نعیم المجمر،وہب بن کیسان، زہری، ابن المنکدر عبد اللّٰہ بن دینار، ایوب سختیانی، ابو الزناد اور ربیعۃ الراے (الرأي)جیسے علمائے مدینہ ۔ [31]
امام صاحب کے تلامذہ میں شافعی، ثوری، ابن عیینہ، شعبہ، یحییٰ انصاری، یحیی القطان، ابن مہدی اورابن مبارک جیسے جلیل القدر ائمہ، محدثین اور فقہا کی ایک طویل فہرست کتبِ تراجم میں موجود ہے۔ [32]

عقیدہ ومسلک

[ترمیم]

امام صاحب حدیث وسنت ، عقیدہ و فقہ کے امام ہیں۔آپ ان جلیل القدر تبع تابعین میں سے ہیں جو بطورِ اُسوہ و نمونہ اُمت میں مشہور ہوئے۔مذاہب اربعہ میں سے دوسرا مذہب آپ کی طرف منسوب ہے۔ امام شاطبی نے امام مالک بن انس کا ایک عظیم الشان قول نقل فرمایا ہے:
قبض رسول الله ﷺ وقد تمّ هذا الأمر واستكمل، فينبغي أن تتبع آثار رسول الله ﷺ وأصحابه، ولا يتبع الرأي، فإنه متى ما اتبع الرأي جاء رجل آخر أقوى في الرأي منك فاتبعته، فكلما غلبه رجل اتبعه، أرى أن هٰذا بعد لم يتم."
’’نبی کریم ﷺ دین کو مکمل کرکے گئے، لہٰذا نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنہم کی ہی اتباع کریں۔ رائے اور قیاس کی طرف نہ جائیں، کیونکہ عقل پرستی کوئی معیار نہیں۔ آپ کوئی عقلی نکتہ لائیں گے، کل کو کوئی دوسرا اس کا توڑ لے آئے گا۔ اور عقل تو عیار ہے سو بھیس بنالیتی ہے، لہٰذا انسان کسی ایک بات اور موقف پر مطمئن نہ ہو سکے گا۔‘‘ [33]
امام صاحب کا ایک اور قول ہے جو ضرب المثل کی حد تک مشہور ہے، فرماتے ہیں:
"السنّة سفينة نوح من ركبها نجا ومن تخلف عنها غرق."
’’ سنت تو سفینۂ نوح ہے، جو اس میں سوا ر ہوگا محفوظ رہے گا، اس سے محروم رہنے والا غرق ہوگا۔‘‘ [34]
ہیثم بن جمیل بیان فرماتے ہیں کہ میں نے امام صاحب سے پوچھا :کچھ لوگ عمر فاروق ﷜ اور ابراہیم نخعی ﷫ کے اقوال ذکر کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ہم ابراہیم کے قول کو لیتے ہیں...کیا یہ درست ہے؟
امام صاحب نے پوچھا: کیا عمر ﷜ کا موقف صحیح سند سے ثابت ہوتا ہے؟ کہا: جی تو فرمایا:
’’ایسے لوگوں سے اس منہجی انحراف سے توبہ کروائی جائے جو صحابہ کی بات چھوڑ تے ہیں۔‘‘
قلت لمالك بن أنس: يا أبا عبد الله! إن عندنا قومًا وضعوا كتبًا يقول أحدهم ثنا فلان عن فلان عن عمر بن الخطاب بكذا وكذا وفلان عن إبراهيم بكذا، ويأخذ بقول إبراهيم، قال مالك: وصحّ عندهم قول عمر؟ قلت: إنما هي رواية كما صحّ عندهم قول إبراهيم، فقال مالك: هؤلاء يُستتابون. [35]
امام صاحب اتباعِ کتاب وسنت کا درس دیا کرتے تھے:
قال معن بن عيسى: سمعت مالكا يقول: إنما أنا بشر أخطئ وأصيب، فانظروا في رأيي، فكل ما وافق الكتاب والسنة فخذوا به، وكل ما لم يوافق الكتاب والسنة فاتركوه.
’’معن بن عیسی بیان کرتے ہیں، امام مالک نے فرمایا: میں ایک انسان ہوں، جس سے درست کے ساتھ ساتھ غلطیاں بھی ہوتی ہیں۔ میرے موقف کو پرکھو، جو کتاب وسنت کے مطابق ہو، اس کو لو اور کتاب وسنت کے مخالف کو چھوڑ دو۔‘‘[36]
امام صاحب بسا اوقات یہ شعر بھی پڑھا کرتے تھے:
وخير أمور الدين ما كان سنة وشر الأمور المحدثات البدائع
’’بہترین دینی کام وہ ہے جو سنت کے مطابق ہو اور بدترین وہ جو بدعات و خرافات پر مشتمل ہو۔ ‘‘ [37]

علمی مقام اور تعریف و توصیف

[ترمیم]

معن بن عیسی فرماتے ہیں کہ مالک ثقہ،ثبَت ،مامون ،پر ہیز گار، عالم و حجت تھے۔ [38]
امام شافعی ﷫ فرماتے ہیں: ’’سنت و اثر میں مالک کی حیثیت ایک ستارے سی ہے،اگر مالک اور ابن عیینہ نہ ہوتے تو حجاز علم سے محروم رہتا۔ مالک کو کسی حدیث میں ذرا شک ہوتا، تو مکمل طور پر اس سے کنارہ کشی کرلیتے۔ پھر فرمایا: ’’مالک میرے معلم ہیں، ا‘نہیں سے ہم نے علم حاصل کیا۔ ‘‘ راوی بیان کرتے ہیں کہ امام شافعی ﷫، امام مالک ﷫ پر کسی کوبرتری دینے کے قائل نہ تھے۔
وہب بن خالد کا بیان ہے:
’’مشرق و مغرب میں مالک سے بڑھ کر حدیثِ نبوی کا کوئی امین موجود نہیں۔‘‘ [39]
ایک مشہور حدیث ہے : «يُوشِكُ أَنْ يَضْرِبَ النَّاسُ أَكْبَادَ الإِبِلِ يَطْلُبُونَ العِلْمَ فَلَا يَجِدُونَ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنْ عَالِمِ المَدِينَةِ.»
’’لوگ علمی سیرابی کے لیے دور دراز کے سفر کریں گے، لیکن انھیں عالم مدینہ سے بڑھ کر کوئی عالم نہ ملے گا۔‘‘ [40]
سفیان بن عیینہ و عبد الرزاق فرماتے ہیں: ’’یہاں عالم مدینہ سے مراد امام مالک بن انس ہیں۔‘‘ [41]
ابن عیینہ یہ بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ’’مالک سے بڑھ کر راویوں میں احتیاط کرنے والا اور ان کا علم رکھنے والا کوئی نہیں۔‘‘ [42]
امام احمد ﷫سے پوچھا گیا کہ زہری کے تلامذہ میں روایتِ حدیث میں سب سے زیادہ پختہ کون ہے؟ فرمایا:
’’مالک بن انس ، جو ہر چیز میں پختگی رکھتے ہیں۔‘‘ [43]
حماد بن زید خود بہت بڑے محدث ہیں۔ امام مالک﷫ کی وفات کی خبر ملی، بے ساختہ گویا ہوئے:
’’ اللّٰہ رحم کرے، اب ان جیسا کوئی نہیں رہا۔‘‘ [44]
امام ابن حبان فرماتے ہیں: فقہاے مدینہ میں رواۃ کی جانچ پڑتال کی داغ بیل ڈالنے والے مالک ہیں، جنھوں نے صحیح وضعیف میں امتیاز کا منہج قائم کیا اور اسی کو امام شافعی﷫ نے آگے بڑھایا۔ [45]
امام نووی فرماتے ہیں: ’’مالک کی امامت و جلالت، عظمت و سیادت، تبجیل و توقیر، حفظ و تثبت کے اقرار واعتراف اور حدیثِ رسول ﷺکی تعظیم پر تمام علما کا اتفاق و اتحاد ہے۔‘‘ [46]
امام ذہبی کی وسعت مطالعہ امام کی شان میں نذرانۂ عقیدت یوں پیش کرتی ہے:
’’امام مالک﷫ کو کچھ ایسی فضیلتیں حاصل ہوئی ہیں کہ میرے علم کی حد تک دیگر لوگ ان سے محروم رہے ہیں: ایک: طولِ عمر اور علو روایت۔ دوسرا :ذہنِ رسا وفہمِ عمیق اور وسعتِ علم۔ تیسرا :تمام علما کا ان کے حجت و صحیح الروایہ ہونے پر اتفاق۔ چوتھا: امام کی دیانت و عدالت اور اتباع سنت پر یک زبان ہونا۔ پانچواں :فقہ و فتویٰ اور اُصولِ استدلال میں ان کی مہارت کا اعتراف کرنا۔‘‘ [47]

حالات زندگی

[ترمیم]

آپ کے زمانہ میں بغداد میں عباسی خلفاء حکمران تھے۔ جس زمانہ میں امام ابو حنیفہ کوفہ میں تھے قریب قریب اسی زمانہ میں امام مالک مدینہ منورہ میں تھے۔ مدینہ شریف میں رہنے کی وجہ سے اپنے زمانے میں حدیث کے سب سے بڑے عالم تھے۔ انھوں نے حدیث کا ایک مجموعہ تالیف کیا جس کا نام موطا امام مالک تھا۔ امام مالک عشق رسول اور حب اہل بیت میں اس حد تک سرشار تھے کہ ساری عمر مدینہ منورہ میں بطریق احتیاط و ادب ننگے پاؤں پھرتے گزار دی ۔

وہ بڑے دیانتدار اصول کے پکے اور مروت کرنے والے تھے۔ جو کوئی بھی انھیں تحفہ یا ہدیہ پیش کرتا وہ اسے لوگوں میں بانٹ دیتے۔ حق کی حمایت میں قید و بند اور کوڑے کھانے سے بھی دریغ نہ کیا۔ مسئلہ خلق قرآن میں مامون الرشید اور اس کے جانشین نے آپ پر بے پناہ تشدد کیا لیکن آپ نے اپنی رائے تبدیل کرنے سے انکار کر دیا۔ ہارون الرشید نے ان سے درخواست کی کہ ان کے دونوں بیٹوں امین و مامون کو محل میں آکر حدیث پڑھا دیں مگر آپ نے صاف انکار کر دیا۔ مجبوراَ ہارون کو اپنے بیٹوں کو ان کے ہاں پڑھنے کے لیے بھیجنا پڑا۔ فقہ مالکی کا زیادہ رواج مغربی افریقہ اور اندلس میں ہوا۔ امام مالک کو امام ابو حنیفہ اور امام جعفر صادق سے بھی علم حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ نو سو شیوخ سے استفادہ حدیث فرمایا اور فتوی نہ دیا۔ یہاں تک کہ ستر اماموں نے گواہی دی اس امر کی وہ قابل ہیں افتا کے اور اپنے ہاتھ سے ایک لاکھ حدیث لکھیں اور سترہ برس کے سن میں درس حدیث شروع کیا اور جب حدیث پڑھانے بیٹھتے غسل کرتے اور خوشبو لگاتے اور نئے کپڑے پہنتے اور بڑے خشوع خضوع اور وقار سے بیٹھتے سفیان بن عیینہ نے کہا کہ رحم کرے-اللہ جل جلالہ مالک پر خوب جانچتے تھے راویوں کو اور نہیں روایت کرتے تھے مگر ثقہ سے اور عبد الرحمن بن مہدی نے کہا کہ امام مالک پر کسی کو مقدم نہیں کرتا ہوں میں صحت حدیث میں اور مالک امام ہیں حدیث اور سنت میں اور کافی ہے امام مالک کی فضیلیت کے واسطے یہ امر کہ امام شافعی ان کے شاگرد ہیں اور امام احمد ان کے شاگردوں کے شاگرد ہیں۔ اور امام محمد جو شاگرد ہیں امام اعظم کے وہ بھی شاگرد ہیں امام مالک کے، امام شافعی نے کہا جب ذکر آئے عالموں کا تو مالک مثل ستارہ کے ہیں اور کسی کا احسان میرے اوپر علم خدا میں مالک سے زیادہ نہیں ہے اور کہا سفیان بن عیینہ نے مراد اس حدیث سے کہ قریب ہی لوگ سفر کریں گے واسطے طلب علم کے پھر نہ پائیں گے زیادہ جاننے والا کسی کو مدینہ کے عالم سے امام مالک ہیں اور اوزاعی جب امام مالک کا ذکر فرماتے تو کہتے کہ وہ عالم ہیں علما کے اور عالم ہیں اہل مدینہ کے اور مفتی ہیں حرمین شریفین کے اور ابن عیینہ کو جب امام مالک کی وفات کی خبر پہنچی تو کہا نہ چھوڑا انھوں نے اپنا مثل زمین پر اور کہا کہ مالک حجت ہیں اپنے زمانے کی اور مالک چراغ ہیں اس امت کے جب امام مالک نے اس کتاب کو مرتب کیا اس وقت لوگوں کے پاس کوئی کتاب نہ تھی بسوا کتاب اللہ کے اور موطا اس کا نام اس لیے ہوا کہ امام مالک نے اس کتاب کو ستر فقیہوں پر پیش کیا سب نے اس پر موافقت کی امام شافعی نے فرمایا کہ آسمان کے نیچے بعد کتاب اللہ کے کوئی کتاب امام مالک کے موطا سے زیادہ صحیح نہیں ہے اور ابن عربی نے کہا کہ موطا اصل اول ہے اور صحیح بخاری اصل ثانی اور ہزار آدمیوں نے اس کتاب کو امام مالک سے روایت کیا۔ اب یہ جو نسخہ رائج ہے یحییٰ بن یحییٰ مصمودی کی روایت سے ہے جس سال امام مالک کی وفات ہوئی اسی سال یحییٰ بن یحیی نے موطا کو امام مالک سے حاصل کیا سب احادیث اور آثار موطا کے ایک ہزار ستائیس ہیں ان میں سے چھ سو حدیثیں مسند اور دو سو بائیس مرسل اور چھ سو تیرہ موقوف اور دو پچاسی تابعین کے اقوال ہیں وفات امام مالک کی اتوار کے روز دسویں ربیع الاول 179ھ میں ہوئی۔ وفات کے وقت ان کی عمر ستاسی برس کی تھی اور بعض کے نزدیک نوے برس کی۔عبد اللہ بن المبارک روایت فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ امام مالک رحمہ اللہ نے درسِ حدیث شروع کیا تواثناءِ درس میں آپ کا رنگ بار بار متغیر ہوجاتا تھا؛ مگرآپ نے نہ درسِ حدیث بند کیا نہ آپ سے حدیث کی روایت کرنے میں کسی قسم کی لغزش واقع ہوئی، فارغ ہونے کے بعد میں نے مزاجِ مبارک دریافت کیا توفرمایا کہ اثناءِ درس میں تقریباً دس بار بچھونے ڈنک مارا ہے اور یہ بھی فرمایا کہ میں نے یہ صبر اپنی شجاعت واستقامت جتنے کے لیے نہیں کیا؛ بلکہ صرف حدیثِ پیغمبر کی تعظیم کے لیے کیا ہے۔ [48] یافعی اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پاک سے عشق تھا؛ حتی کہ آپ اپنے ضعف وپیری کے باوجود مدینہ میں سوارنہ ہوتے اور فرمایا کرتے تھے جس شہر میں آپ کا جسدِ مبارک مدفون ہو اس میں، میں ہرگز سوار ہونے کی طاقت نہیں رکھتا۔ایک مرتبہ ہارون رشید مدینہ طیبہ آیا اس کویہ معلوم ہو چکا تھا کہ امام مالک رحمہ اللہ نے کتاب مؤطا تالیف فرمائی ہے اور آپ لوگوں کواُس کی تعلیم بھی دیتے ہیں، ہارون رشید نے اپنے وزیرجعفر برمکی کوآپ کی خدمت میں بھیجا کہ وہ سلام عرض کریں اور یہ عرض کریں کہ آپ مؤطا لاکر مجھے سنادیں، برمکی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور امیر المومنین کا سلام پہنچا کراس کی درخواست پیش کی، امام نے جواب دیا میرا اُن سے سلام کہنا اور کہدینا کہ علم خود کسی کے پاس نہیں آیا کرتا، لوگ اس کے پاس آیا کرتے ہیں، جعفر واپس آیا اور امام مالک رحمہ اللہ کا فرمان عرض کر دیا، اتنے میں امام عالی مقام بھی خود تشریف لے آئے اور سلام کرکے بیٹھ گئے، ہارون رشید نے کہا: میں نے آپ کے پاس ایک پیغام بھیجا تھا آپ نے میرا حکم نہیں مانا؟ امام مالک رحمہ اللہ نے سند کے ساتھ وہ روایت سنائی جس میں زید فرماتے ہیں کہ نزولِ وحی کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زانوئے مبارک میرے زانو پرتھا صرف کلمہ غیر اولیٰ المضرر نازل ہوا تھا کہ اس کے وزن سے میرا زانو چور چور ہوجانے کے قریب ہو گیا تھا، اس کے بعد فرمایا جس قرآن کا ایک حرف حضرت جبرئیل علیہ السلام پچاس ہزار سال کی مسافت سے لے کر آئے ہوں (حضرت استاد مرحوم فرماتے تھے کہ اس حکایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمانوں کی مسافت کا پچاس ہزار سال کی مدت ہونا ائمہ کے درمیان بھی مشہور تھا) کیا میرے لیے زیبا نہیں کہ میں بھی اس کی عزت واحترام کروں، اللہ تعالیٰ نے آپ کوعزت وبادشاہت سے نوازا ہے؛ اگرسب سے پہلے آپ ہی اس علم کی مٹی خراب کریں گے توخطرہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کہیں آپ کی عزت برباد نہ کر دے، یہ سن کروہ مؤطا سننے کے لیے آپ کے ساتھ ہو گیا، امام مالک رحمہ اللہ نے اپنے ساتھ اس کومسند پربٹھالیا، جب مؤطا پڑھنے کا ارادہ کیا تواس نے کہا: آپ ہی مجھے پڑھ کرسنائیے، امام نے فرمایا: عرصہ ہوا میں خود پڑھ کرسنانا چھوڑچکا ہوں اس نے کہا اچھا تواور لوگوں کوباہرہی نکال دیجئے تاکہ میں خود آپ کوسنادوں، امام نے فرمایا علم کی خاصیت یہ ہے کہ اگرخاص لوگوں کی رعایت سے عام لوگوں کواس سے محروم کر دیا جاتا ہے توپھرخواش کوبھی اس سے نفع نہیں ہوتا، اس کے بعد آپ نے معن بن عیسیٰ کوحکم دیا کہ وہ قرأت شروع کر دیں، جب انھوں نے قرأت شروع کی توامام نے ہارون رشید سے کہا: اے امیر المومنین! اس شہر میں اہلِ علم کا دستور یہ ہے کہ وہ علم کے لیے تواضع کرنا پسند کرتے ہیں، ہارون یہ سن کرمسندسے اُترآیا اور سامنے آبیٹھا اور مؤطا سننے لگا۔ایک مرتبہ جعفر بن سلیمان سے کسی نے شکایت کردی کہ امام صاحب آپ کی خلافت کے مخالف ہیں، اس نے آپ کے سترکوڑے لگانے کا حکم دیدیا، اس کے بعد آپ کی عزت اور بڑھتی گئی گویا یہ کوڑے، آپ کا زیور بن گئے، منصور جب مدینہ آیا تواس نے انتقام لینے کا ارادہ کیا، امام مالک رحمہ اللہ نے قسم کھا کرفرمایا میں تواس کا ایک ایک کوڑا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت کی خاطر معاف کرچکا ہوں، مؤرخین کہتے ہیں کہ یہ سزا آپ کواس جرم میں دی گئی تھی کہ آپ نے کوئی فتویٰ ان کی غرض کے موافق نہیں دیا تھا۔ [49] ذہبی کا بیان ہے پانچ باتیں جیسی امام مالک رحمہ اللہ کے حق میں جمع ہو گئی ہیں، میرے علم میں کسی اور شخص میں جمع نہیں ہوئیں: (1)اتنی دراز عمراور ایسی عالی مسند (2)ایسی عمدہ فہم اور اتنا وسیع علم (3)آپ کے حجت اور صحیح الروایۃ ہونے پرائمہ کا اتفاق (4)آپ کی عدالت، اتباعِ سنت اور دینداری پرمحدثین کا اتفاق (5)فقہ اور فتویٰ میں آپ کی مسلمہ مہارت۔ [50] ائمہ اربعہ میں صرف ایک آپ ہیں جن کی تصنیف فنِ حدیث کے متعلق امت کے ہاتھ میں موجود ہے، بقیہ جوتصانیف دوسرے ائمہ کی طرف منسوب ہیں وہ ان کے شاگردوں کی جمع کردہ ہیں؛ حتی کہ مسند امام احمد بھی گواس کی تسوید خود امام موصوف نے کی ہے؛ مگراس کی موجودہ ترتیب خود امام کی نہیں ہے۔ [51] ہارون رشید کے نام بیس صفحات پرآپ کا جوخط ہے قابل دید ہے، افسوس ہے کہ یہاں اس کا خلاصہ بھی درج نہیں کیا جا سکتا اور جوخود ہی خلاصہ ہو اُس کا خلاصہ اور کیا کیا جا سکتا ہے، مطرف بن عبد اللہ منجملہ آپ کے نصیحت آمیز کلمات کے نقل کرتے ہیں کہ بیکار اور غلط باتوں کے پاس پھٹکنا بربادی ہے، غلط بات زبان پرلانا سچائی سے دوری کی بنیاد ہے؛ اگرانسان کا دین ومروت بگڑنے لگے تودنیا بہت بھی جمع ہوجائے؛ پھربھی کس کام کی ہے، ابن وہب کہتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ کہا کرتے تھے کہ علم آئندہ اور گھٹے گا بڑھے گا نہیں اور ہمیشہ انبیا علیہ السلام اور کتب سماویہ کے نزول کے بعد گھٹا ہی کرتا ہے، سلف میں علم ہدایت کے علوم ہی کا نام تھا، اس لحاظ سے اس مقولہ کے صدق میں کیا تردد ہے۔ [52] قعبنی نقل کرتے ہیں کہ میں مرض الوفات میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا سلام کرکے بیٹھ گیا دیکھا توامام رو رہے تھے، میں نے سبب دریافت کیا توفرمایا کیسے نہ روؤں اور مجھ سے زیادہ رونے کا اور کون مستحق ہو سکتا ہے؟ میری آرزو ہے کہ جومسئلہ بھی میں نے اپنی رائے سے بتایا ہے ہرمسئلہ کے بدلہ میرے ایک کوڑا مارا جائے، کاش میں نے اپنی رائے سے ایک مسئلہ بھی نہ بتایا ہوتا، مجھے گنجائش تھی کہ اس کے جوجوابات مجھ سے پہلے دیے جاچکے تھے اُن ہی پرسکوت کرلیتا، ماہِ ربیع الاوّل میں آپ کا انتقال ہوا اور جس تمنا میں عمرگذاری تھی آخروہ پوری ہوئی یعنی دیارِ حبیب کی خاک پاک نے ہمیشہ کے لیے آپ کواپنی آغوش میں لے لیا، آپ سرزمینِ مدینہ ہی میں آسودۂ خواب ہیں۔

حدیث کی سنہری زنجیر

[ترمیم]

امام مالک رحمۃ اللّٰہ علیہ کے راویوں کا سلسلہ سب سے زیادہ مستند سمجھا جاتا تھا اور اسے سلسلتہ الذہب یا "راویوں کا سنہری سلسلہ" کہا جاتا تھا جس میں محمد البخاری سمیت مشہور تمام محدثین نے فرمایا تھا۔[53] روایت کی سنہری زنجیر (یعنی جسے تمام محدثین سب سے زیادہ مستند سند سمجھتے ہیں) امام مالک کی سند پر مشتمل ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ ، نافع مولیٰ ابن عمر رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں، ابن عمر رضی اللہ عنہ براہ راست محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے روایت کر رہے ہیں۔اس کو بیان کی سنہری سند کہا جاتا ہے۔[54]

دینیات

[ترمیم]
PERF نمبر 731، مالک کی موطا کا قدیم ترین نسخہ، جو اس کے اپنے وقت کا ہے۔ ریکٹو (بائیں) میں باب الترغیب فی صدقہ، 795 عیسوی کے مندرجات ہیں۔.[55][56]

PERF نمبر 731، امام مالک کی موطا کا قدیم ترین نسخہ، جو امام صاحب کے اپنے وقت کا ہے۔ ریکٹو (بائیں) میں باب الترغیب فی صدقہ، 795 عیسوی کے مندرجات ہیں۔[57]عبد الغنی الدقر نے لکھا ہے کہ امام مالک جدلیاتی الہیات سے 'تمام لوگوں سے دور' تھا جو ان کے خیالات کو قبول کیے بغیر ان کی بحثوں کا سب سے زیادہ علم رکھتا تھا۔ جی ایف دوسری طرف حداد نے دلیل دی کہ مالک جدلیاتی الہیات کے نظریے سے مکمل طور پر مخالف نہیں تھا۔ اس کے برعکس، حداد اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ مالک نے 'ابن ہرمز کے قدموں میں'، جو جدلیات کے علم میں ماہر تھا، 'تیرہ سے سولہ سال' تک تعلیم حاصل کی تھی۔واللہ اعلم [58]

بشریات

[ترمیم]

الہیات کے میدان میں امام مالک کی منفرد خدمات خاص طور پر یہ ہے کہ وہ بشریت کے سخت مخالف تھے، [58]] اور خدا کی صفات کا موازنہ کرنا مضحکہ خیز سمجھتے تھے، جو "انسانی تصویر" میں دی گئی تھیں جیسے کہ خدا کے "ہاتھ" یا "آنکھیں" انسان کی آنکھوں کے ساتھ تشبیہ دینا وغیرہ۔[58] مثال کے طور پر، جب ایک شخص نے امام مالک رحمہ اللّٰہ علیہ سے قرآن مجید کی آیت:
اَلرَّحۡمٰنُ عَلَی الۡعَرۡشِ اسۡتَوٰی سورہ طہ آیت﴿5﴾
وہ بڑی رحمت والا عرش پر استواء فرمائے ہوئے ہے ۔
کے معنی کے بارے میں پوچھا، "رحمن نے اپنے آپ کو عرش پر قائم کیا" "امام مالک پر کسی چیز نے اتنا اثر نہیں کیا جتنا کہ اس آدمی کے سوال نے ،" اور فقیہ نے بڑے جوش سے جواب دیا: " اس کا 'کیسا' ناقابل فہم ہے ، اس کا 'قیام' حصہ معلوم ہے ، اس پر ایمان لانا فرض ہے اور اس کے بارے میں پوچھنا بدعت ہے۔(تمام اہل سنت مسلمانوں کا عقیدہ بھی یہی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ عرش پر جلوہ فرما ہے جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔)۔" [59][60]

ایمان کی فطرت

[ترمیم]

جب امام مالک رحمہ اللہ علیہ سے ایمان کی نوعیت کے بارے میں پوچھا گیا تو امام مالک نے اس کی تعریف "گفتار اور اعمال" (قولون وعمل) سے کی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام مالک رحمہ اللّٰہ علیہ ایمان اور اعمال کی علیحدگی کے سخت خلاف تھے۔[61]

تصوف

[ترمیم]

کئی ابتدائی روایات کی بنیاد پر، یہ واضح ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے ابتدائی صوفیوں اور ان کے طریقوں کو بہت زیادہ اہمیت دی تھی۔[62]مزید یہ کہ امام مالک صوفیانہ علم کی "باطنی سائنس" ('علم الباطن) کو فقہ کی "ظاہری سائنس" کے ساتھ ملانے کے مضبوط حامی تھے۔[62]مثال کے طور پر، بارہویں صدی کے مشہور مالکی فقیہ اور جج قاضی عیاض ، جس کی جزیرہ نما آئبیرین والے ان کی ایک بزرگ کے طور پر تعظیم کرتے تھے، انھوں نے ایک روایت بیان کی جس میں ایک شخص نے امام مالک سے "باطنی سائنس میں کسی چیز کے بارے میں" پوچھا، جس پر امام مالک نے جواب دیا: "واقعی۔ باطنی سائنس کو ان کے سوا کوئی نہیں جانتا جو ظاہری علوم کو جانتا ہے، جب وہ ظاہری سائنس کو جانتا ہے اور اسے عملی جامہ پہناتا ہے تو خدا اس کے لیے باطنی علوم کو کھول دیتا ہے - اور یہ اس کے دل کے کھلنے اور اس کی روشنی کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔ "[63] اگرچہ چند روایات یہ بتاتی ہیں کہ امام مالک، اگرچہ مجموعی طور پر تصوف کے مخالف نہیں تھے، تاہم اس کے باوجود گروہی ذکر کے خاص طور پر مخالف تھے، اس طرح کی روایات کو ان کے سلسلہ میں منکر یا "ضعیف" قرار دیا گیا ہے۔ [64] مزید برآں، یہ استدلال کیا گیا ہے کہ ان خبروں میں سے کوئی بھی جن میں سے تمام قریب میں ہونے والے گروپ ذکر کی ایک مثال کے بارے میں بتائے جانے پر ملک کے ناپسندیدہ تفریح ​​​​کا تعلق ہے - واضح طور پر اس عمل کی کسی قسم کی ناپسندیدگی کو ظاہر کرتا ہے، بلکہ "کچھ" کی تنقید کے طور پر کام کرتا ہے۔ وہ لوگ جو اپنے زمانے میں صوفیوں کے لیے گذرے ہیں جنھوں نے بظاہر مقدس قانون کی کچھ زیادتیوں یا خلاف ورزیوں کا ارتکاب کیا ہے۔" چونکہ ان کی نشریات کی دونوں زنجیریں کمزور ہیں اور ان کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی ہیں جو امام مالک کی دوسری جگہوں پر ہے، روایات کو رد کیا جاتا ہے۔ بہت سے علما، اگرچہ تصوف کے آخری دور کے ناقدین کبھی کبھار اپنے موقف کی تائید میں ان کا حوالہ دیتے ہیں امام مالک اس کی نفعی کرتے ہیں ۔[64] .[64]

محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سنت

[ترمیم]

امام مالک رحمہ اللہ علیہ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی کو ہر مسلمان کے لیے اہم سمجھتے تھے۔ روایت ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: "محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سنت نوح علیہ السلام کی کشتی کی طرح ہے، جو اس پر سوار ہوا وہ نجات پا گیا اور جو اس سے دور رہا وہ ہلاک ہو گیا۔"[65]

اختلاف رائے

[ترمیم]

امام مالک رحمہ اللہ کی زندگی کے احوال سے پتہ چلتا ہے کہ عالم امام مالک نے علمائے کرام کے درمیان اختلاف رائے کو خدا کی طرف سے اسلامی برادری کے لیے رحمت قرار دیا تھا۔[66] یہاں تک کہ "امام مالک کے زمانے میں بھی ایسے لوگ موجود تھے جنھوں نے ایک متفقہ مذہب اور سنی مکاتب فکر کے درمیان تمام اختلافات کو دور کرنے کے خیال کو آگے بڑھایا،"اس کے ساتھ "متواتر تین خلفاء" نے "امام مالک رحمہ اللہ کے مکتب کو پورے ملک پر مسلط کرنے کی کوشش کی۔ اپنے وقت کی اسلامی دنیا پر، لیکن "امام مالک نے ہر بار اس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا... آپ کے نزدیک فقہا کے درمیان اختلاف رائے" لوگوں کے لیے "رحمت" ہے۔[67] جب دوسرے عباسی خلیفہ المنصور نے امام مالک سے کہا: "میں اس علم کو یکجا کرنا چاہتا ہوں، میں فوج کے سربراہوں اور حکمرانوں کو خط لکھوں گا تاکہ وہ اسے قانون بنائیں اور جو اس کی خلاف ورزی کرے گا اسے سزائے موت دی جائے گی۔ کہا جاتا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے جواب دیا: "مؤمنین کے سردار، ایک اور طریقہ ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس امت میں موجود تھے، آپ فوج بھیجتے تھے یا خود روانہ ہوتے تھے اور آپ نے بہت سی زمینیں فتح نہیں کیں جب تک کہ اللہ تعالی اس کی روح واپس لے لی، پھر ابوبکرؓ اٹھے اور انھوں نے بھی بہت سی زمینیں فتح نہ کیں، پھر ان دونوں کے بعد عمرؓ اٹھے اور بہت سی زمینیں ان کے ہاتھوں فتح ہوئیں، اس کے نتیجے میں انھیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں علم سیکھانے کے لیے باہر بھیجنے کی ضرورت پیش آئی۔صحابہ کرام سے علم سیکھنے کے بعد بھی وہ لوگ اختلاف کرنے سے باز نہیں آئے، اب اگر آپ جائیں اور ان کو ان چیزوں سے تبدیل کریں جو وہ جانتے ہیں اور جو وہ نہیں جانتے تو انتشار پھیلے گا اور وہ لوگ اسے کفر سمجھیں گے۔ ہر ملک کے لوگ کے پاس کچھ علمی دلائل ہوتے ہیں لازمی نہیں کہ ہم اپنے دلائل ان پر مسلط کر دیں۔"[68] ایک اور روایت کے مطابق المنصور نے بعض اہم سوالات کے جوابات مالک سے سننے کے بعد کہا: ’’میں نے فیصلہ کیا ہے کہ آپ کی تصانیف کو نقل کر کے روئے زمین کے ہر مسلمان خطہ تک پہنچایا جائے، تاکہ ان پر خصوصی طور پر عمل کیا جائے۔ وہ بدعات کو چھوڑ دیں گے اور صرف اسی علم کو رکھیں گے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ علم کا سرچشمہ مدینہ کی روایت اور اس کے علما کا علم ہے۔ : "امام مالک نے فرمایا :مؤمنین کے سردار، مت کرو کیونکہ لوگ پہلے ہی مختلف مقامات سن چکے ہیں، حدیثیں اور متعلقہ احادیث سن چکے ہیں، ہر گروہ نے جو کچھ ان کے پاس آیا اسے لے کر انھوں نے عمل میں لایا، جب کہ کچھ لوگوں نے اختلاف کیا۔ جس چیز کا وہ دعویٰ کرتے رہے ہیں اس سے دور رہنا ہی بہتر ہے ورنہ تباہی کا باعث بنے گا۔ لہٰذا لوگوں کو چھوڑ دو کہ وہ جس مکتب کی پیروی کرتے ہیں اور جس کو ہر ملک کے لوگوں نے اپنے لیے منتخب کیا ہوا ہے۔"[69]

علم کی حدود کو جاننا

[ترمیم]

امام مالک رحمہ اللہ علیہ کا یہ قول مشہور ہے کہ: "عالم کی کیا ڈھال ہے: عالم کی ڈھال ہے 'میں نہیں جانتا۔' اگر اس نے اس میں کوتاہی کی تو اسے جان لیوا دھچکا لگے گا۔" [70] دوسری جگہ خالد بن خداش کا قول ہے: "میں نے عراق سے سارا سفر طے کیا تاکہ امام مالک رحمہ اللہ سے تقریباً چالیس سوالوں کے جواب مل سکیں، آپ نے پانچ سوالوں کے سوا مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔ انھوں نے کہا: ابن عجلان کہتے تھے: اگر عالم 'میں نہیں جانتا' کو نظر انداز کرے گا تو اسے ایک جان لیوا ضرب لگے گی۔"[70] اسی طرح الہیثم بن جمیل کہتے ہیں: "میں نے امام مالک بن انس سے چالیس سوال کیے ہوئے۔آپ نے آٹھ سوالوں کے سوا ، بتیس(32) کا جواب دیا: 'میں نہیں جانتا'۔" [70] بعد میں، امام مالک کے شاگرد ، ابن وہب، بیان کرتے ہیں: "میں نے عبد اللہ بن یزید ابن ہرمز کو کہتے سنا: ' علمائے کرام کو چاہیے کہ وہ اپنے ساتھ بیٹھنے والوں میں 'میں نہیں جانتا' کا جملہ ڈالیں جب تک کہ یہ ان کے سامنے ایک بنیادی اصول نہ بن جائے اور وہ خطرے سے اس کی پناہ مانگیں۔"[70]

مذہبی اختلاف

[ترمیم]

امام مالک رحمہ اللہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مذہب کے معاملات میں جھگڑے کو ناپسند کرتے تھے اور آپ فرماتے ہیں کہ: "دین میں جھگڑا (الجدال) خود نمائی کو فروغ دیتا ہے، دل کے نور کو ختم کر دیتا ہے اور اسے سخت کر دیتا ہے اور بے مقصد بھٹکنے کو جنم دیتا ہے۔"[71] لہٰذا، امام مالک کی طرف سے غیر ضروری دلیل کو ناپسند کیا گیا اور انھوں نے مذہبی معاملات کے بارے میں عام طور پر خاموش رہنے کا درس دیا ہے جب تک کہ وہ خود کو "گمراہی کے پھیلاؤ یا کسی ایسے ہی خطرے" کے خوف سے بولنے کا پابند محسوس نہ کریں۔[72]

مونچھیں مونڈنا

[ترمیم]

موطا میں،امام مالک رحمہ اللّٰہ علیہ لکھتے ہیں: "مونچھیں مونڈنا بدعت ہے۔" [73] دوسری جگہ لکھا ہے کہ وہ مونچھیں منڈوانے کو "نفرت اور مذمت" کرتے تھے اور مزید یہ کہ "داڑھی کی حد سے زیادہ لمبائی کو ناپسند کرتے تھے"۔ [73] جب کہ کئی دوسرے علما نے مونچھوں کے تراشنے (قس) اور ہٹانے (احفاظ) دونوں کو سنت قرار دیا، امام مالک رحمہ اللہ نے صرف سابقہ ​​کو صحیح معنوں میں پیغمبرانہ طور پر مشروع قرار دیا اور مؤخر الذکر کو ایک ناقابل فہم بدعت قرار دیا (امام مالک کی اس سے مراد بالکل مونچھیں مونڈ دینا بدعت ہے چھوٹا کرانا امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک بھی سنت ہے)۔[73]

حلیہ

[ترمیم]

امام مالک رحمہ اللہ علیہ کے متعلق دستیاب جسمانی وضاحتیں بتاتی ہیں کہ آپ کا "لمبا، بھاری قد کاٹھ تھا، بہت ہی خوبصورت، سفید داڑھی مبارک تھی... تھوڑے کم بال والے ... نیلی آنکھوں والا"تھے۔ [73]مزید برآں، یہ بھی آپ کے متعلق ہے کہ "آپ ہمیشہ خوبصورت لباس پہنتے تھے، خاص طور پر آپ سفید لباس پہنتے تھے۔"[73]

فقہ مالکی

[ترمیم]

امام مالک رحمہ اللہ کی فقہ میں اہلِ مدینہ کے تعامل کوخاص اہمیت حاصل ہے، اُن کے نزدیک مدینہ مہبطِ وحی ہے، اس کا تعامل حجت ہونا چاہیے، حافظ ابو عمر دراوردی سے نقل کرتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ جب یہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شہر کا عمل اسی مسئلہ پر دیکھا ہے تو اُس سے اُن کی مراد ربیعۃ بن ابی عبد الرحمٰن اور ابن ہرمز ہوتے ہیں۔ [74] فقہ مالکی کا زیادہ چرچا اہلِ مغرب اور اندلس میں ہے، ابنِ خلدون اس کی وجہ یہ لکھتا ہے کہ اہلِ مغرب اور اندلس کا سفر اکثر حجاز ہی کی جانب ہوا کرتا تھا اس زمانہ میں مدینہ طیبہ علم کا گہوارہ بن رہا تھا؛ یہیں سے نکل کرعلم عراق پہنچا ہے، ان کے راستہ میں عراق نہ پڑتا تھا اس لیے ان کے علم کا ماخذ صرف علماِ مدینہ تھے، علماِ مدینہ میں امام مالک رحمہ اللہ کا رتبہ معلوم ہے اس لیے مغرب اور اندلس کے اصحاب کا علم امام مالک رحمہ اللہ علیہ اور اُن کے بعد اُن کے تلامذہ میں منحصر ہو گیا تھا، ان ہی کے وہ مقلد تھے ۔

وفات

[ترمیم]
امام مالک کی آخری آرام گاہ جنت البقیع ، قبرستان، مدینہ

امام مالک رحمہ اللہ علیہ کی وفات 83 یا 84 سال کی عمر میں بروز اتوار 14 ربیع الاول 179ھ بمطابق 7 جون 795ء عیسوی میں مدینہ میں ہوئی اور مسجد نبوی کے سامنے البقیع کے قبرستان میں دفن ہیں۔ اگرچہ قرون وسطیٰ کے اواخر میں آپ کی قبر مبارک کے ارد گرد ایک چھوٹا سا مزار تعمیر کیا گیا تھا، جس میں بہت سے مسلمان ان کی تعظیم کے لیے وہاں جاتے تھے، لیکن سعودی عرب کی بادشاہت نے اس کی بہت سی روایتی اسلامی ورثے کو منہدم کرنے کی مہم کے دوران اس تعمیر کو زمین بوس کر دیا تھا۔[75] 1932ء میں مملکت کے قیام کے بعد کے مقامات۔ امام مالک کے آخری الفاظ اسماعیل بن ابی اویس روایت کرتے ہیں کہ جب امام مالک بیمار ہو گئے تو میں نے ان لوگوں سے جو آپ کی وفات کے وقت وہاں موجود تھے ، پوچھا کہ آپ نے موت کے وقت کیا کہا تھا تو انھوں نے کہا کہ آپ نے ایمان کی گواہی پڑھی(کلمہ شہادت)۔ پھر آپ نے تلاوت کی:

" إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ " 'ہم تو اللہ ہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔'

[76] مکہ اور مدینہ کے عباسی گورنر عبداللہ الزینبی نے 795ء میں امام مالک بن انس کے جنازے کی امامت کی۔[77]

تصانیف

[ترمیم]

امام مالک رحمہ اللہ علیہ کی دو بڑی تصانیف ہیں:

(1) مؤطا امام مالک تقریباً سنہری اسناد کے ساتھ احادیث کا مجموعوں ۔

(2)المدوانۃ الکبریٰ ، جسے سہنون بن سعید بن حبیب التنوخی (م776ء--854ء) نے امام مالک رحمہ اللہ علیہ کی وفات کے بعد لکھا ہے۔

آزمائش اور صبر وثبات

[ترمیم]

کئی ایک جلیل القدر علما کلمہ حق کہنے کی پاداش میں وقت کے حکمرانوں کے زیر عتاب رہے، امام مالک بھی انھیں میں سے ایک ہیں۔جبری طلاق نہیں ہوتی، امام مالک کا مشہور فتویٰ ہے۔ یہ حاکم وقت کو پسند نہیں تھا، جس کے سبب امام صاحب کو بہت مشقت و اذیت کا سامنا کرنا پڑا، اس واقعہ کی تمام تفصیلات قاضی عیاض نے ترتیب المدارك (2؍130)میں ذکر کی ہیں۔ حافظ عبد اللّٰہ محدث روپڑی نے اس کا ذکر اپنی کتاب ’حکومت اور علماے ربانی‘(ص 25تا29) میں بھی کیا ہے، وہیں سے خلاصۃً اسے یہاں ذکر کیا جاتا ہے:
’’اگر کسی مرد سے زبردستی یاڈرا دھمکا کر (قتل وغیرہ کا خوف دلا کر) اس کی عورت سے طلاق حاصل کرلی جائے تو ایسی طلاق بالکل حق وصواب اور جائز و صحیح ہے۔‘‘
جب یہ فتویٰ امام دار الہجرۃکے روبرو پیش ہوا تو آپ نے «لا طلاق ولا عتاق في إغلاق» والی حدیث کے پیش نظر علیٰ الاعلان اس کی تردید و تکذیب کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں فرمایا کہ "طلاق المکرَه لیس بشيء" یعنی جبر و اکراہ سے حاصل کردہ طلاق بالکل لغو وباطل ہے۔ ایسی مطلقہ عورت سے نکاح کرنا ویسے ہی حرام و ناجائز ہے جیسا کہ عام منکوحہ عورتوں سے شریعت نے حرام و ناجائز قرار دے دیا ہے۔ [78] نہ صرف یہ بلکہ عالم مدینہ اس حدیث سے یہ فتوی بھی دیتے جس طرح طلاق المکره غلط وباطل ہے، ویسے ہی بزور شمشیر بیعتِ خلافت حاصل کرنے والے خلیفہ کی بیعت بھی شرعاً جائز و صحیح نہیں۔ اور منصور کی بیعتِ خلافت چونکہ جبر و اکراہ پر مبنی تھی، اس لیے عالم مدینہ کے دونوں اعلانات بظاہر حکومت کو کھلا چیلنج تھے اور اس طرفہ پر طرہ یہ ہوا کہ ان دنوں مدینہ منورہ کا گورنر جعفر بن سلیمان تھا جو منصور عباسی کا چچا زاد بھائی تھا۔ جب دونوں اعلانات اس نے سنے تو شاہی قرابت اور حکومت کے نشہ سے سرشار اس نے امام صاحب کو انتباہی نوٹس دیا کہ اپنے فتویٰ سے رجوع کریں یا کم ازکم آئندہ ایسا فتوی نہ دیں۔ حضرت امام مالک رحمہ اللہ علیہ کا وجود ہی فطرتاً کتاب وسنت کی نشر و اشاعت کے لیے مختص تھا، بنابریں آپ نے گورنر جعفر بن سلیمان کے انتباہی نوٹس کی ایک ذرہ پروا نہ کی، بلکہ مزید جوش و خروش سے رد ّو تردید کرتے ہوئے کھلم کھلا اعلان کرتے رہے: طلاق المکره لیس بشيء یعنی جبر و اکراہ سے حاصل کردہ طلاق غلط وباطل ہے۔ جعفر شاہی آرڈر کی توہین دیکھ کر آگ بگولہ ہو گیا اور پولیس کو حکم دیا کہ امام صاحب کو اخلاقی مجرم کی حیثیت سے انتہائی ذلیل کن حالت میں پیش کیا جائے۔ امام صاحب کو لایاگیا، جعفر نے اپنا مطالبہ دہرایا۔ امام صاحب نے پھر اسی شان سے اسے ٹھکرادیا اور فرمایا: اگر تمھارے مفتیوں کے پاس کوئی نص قطعی موجود ہے تو پیش کرو، ورنہ ہم فتویٰ کو واپس لینے یا اس سے باز رہنے کے لیے قطعاً تیار نہیں۔ والی مدینہ نے زچ ہو کر امام صاحب کو مار پیٹ کا حکم دے دیا۔ امام صاحب کوڑوں کی ضرب سے چلانے کی بجائے طلاق المکره لیس بشيء کے نعرے بلند کرتے جاتے۔ اپنی خفت و ندامت کو مٹانے کے لیے ظالم وقت نے حکم دیا کہ اس باغی کا منہ کالا کرکے پورے شہر میں گھمایاجائے۔ امام صاحب وہاں بھی سر عام یوں فرمانے لگے: ’’مجھے جاننے والے تو خوب جانتے ہیں، جو نہیں جانتا وہ سن لے کہ میں مالک بن انس اصبحی ہوں اور ڈنکے کی چوٹ کہتاہوں کہ جبرو اکراہ کی طلاق کی کوئی حیثیت نہیں۔ ‘‘والی مدینہ کوخبر کی گئی کہ تم نے امام کو ذلیل و رسوا کرنے کا پلان کیا تھا، لیکن امام اُلٹا حکومت کے ظلم وغصب کی داستان گلی کوچوں میں بیان کر رہے ہیں، تو والی مدینہ نے کہا کہ امام صاحب کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ حکومتی کارندوں سے خلاصی پاتے ہی امام صاحب مسجدِ نبوی گئے وہاں بطورِ شکرانہ دوگانہ ادا کیا۔خلیفہ منصور کو جب یہ صورت حال پہنچی تو بہت برہم ہوا اور والی مدینہ جعفر کو کہلا بھیجا کہ تمھاری بیوقوفی کی یہ سزا ہے کہ ابھی فورا گدھے پر سوار ہو کردار الخلافہ بغداد حاضری دو، خلیفہ منصور نے جعفر بن سلیمان کو معزول کر دیا اور خود مدینہ حاضری دے کر امام صاحب سے معذرت خواہ ہوا ۔ یہ تھا وقت کے امام ہمام مالک بن انس کا وقت کے حکمران سے تعامل، ان کی شجاعت و بہادی اور کلمہ حق سے دین کا سر بلند ہوا اور وقت کے حکمران کو ذلت وپستی کا سامنا کرنا پڑا۔

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہhttp://data.bnf.fr/ark:/12148/cb12190972t — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  2. ناشر: کتب خانہ کانگریس — ربط: کتب خانہ کانگریس اتھارٹی آئی ڈی — اخذ شدہ بتاریخ: 14 اکتوبر 2017
  3. ^ ا ب عنوان : Малик ибн Анас
  4. عنوان : Малик
  5. عنوان : Нафи ибн Хурмуз
  6. عنوان : Джафар ас-Садик
  7. عنوان : Шейбани Мухаммад ибн Хасан
  8. مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہAbū ʿAbd Allâh Mālik ibn Anas al-Aṣbaḥī (0711?-0796) — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  9. Gibril F. Haddad (2007)۔ The Four Imams and Their Schools۔ London, the U.K.: Muslim Academic Trust۔ صفحہ: 121 
  10. الطبقات لابن سعد:5/ 465، وفيات الأعيان لابن خلكان:4 / 135
  11. نهاية الأرب في فنون الأدب، النويري، ص225
  12. خلاصة السير الجامعة لعجائب أخبار الملوك التبابعة، نشوان الحميري، ص59
  13. سيرة ابن كثير، ابن كثير، ص18
  14. الإمام مالك بن أنس إمام دار الهجرة، عبد الغني الدقر، دار القلم، دمشق، الطبعة الثالثة، 1419هـ-1998م، ص21
  15. انظر أيضاً: تزيين الممالك بمناقب الإمام مالك، جلال الدين السيوطي، دار الرشاد الحديثية، الدار البيضاء، المغرب، الطبعة الأولى، 1431هـ-2010م، ص17
  16. انظر أيضاً: سير أعلام النبلاء، أبو عبد الله محمد بن أحمد الذهبي، دار الحديث، القاهرة، طبعة عام 1427هـ-2006م، ج7 ص150
  17. انظر أيضاً: الديباج المذهب في معرفة أعيان علماء المذهب، ابن فرحون إبراهيم بن علي اليعمري، دار التراث للطبع والنشر، القاهرة، ج1 ص82
  18. مالك بن أنس، عبد الغني الدقر، ص24
  19. انظر أيضاً: الديباج المذهب، ابن فرحون، ج1 ص84
  20. الثقات لابن حبان:7/459، سير أعلام النبلاء:7 / 150، تاريخ الإسلام للذهبي:4/719
  21. الإصابة لإبن حجر:7/248
  22. مشاهير علما الأمصار لابن حبان: ص 212
  23. ترتيب المدارك للقاضي عياض:1/115
  24. تهذيب الأسماء واللغات للنووي:2/75، تاريخ الإسلام للذهبي:4/ 719
  25. سير أعلام النبلاء للذهبي:7/154
  26. صحيح مسلم :2/992 (رقم1363)
  27. الطبقات لابن سعد:5/465، 468، 469
  28. تهذيب الأسماء واللغات:2/77
  29. Gibril F. Haddad, The Four Imams and Their Schools (London: Muslim Academic Trust, 2007), p. 158
  30. Yasin Dutton، The Origins of Islamic Law: The Qurʼan, the Muwaṭṭaʼ and Madinan ʻAmal، صفحہ: 16 
  31. تاريخ الإسلام للذهبي:4/719
  32. تهذيب الأسماء و اللغات:2/75
  33. الاعتصام للشاطبي:1/ 140 و 2/ 660
  34. ذم الکلام للهروي: ص 210
  35. إعلام الموقعين لابن القيم:2/ 201
  36. جامع بيان العلم وفضله لابن عبد البر:1/775
  37. الاعتصام للشاطبي:1/ 115
  38. الطبقات لابن سعد:5/ 469
  39. تهذيب الأسماء واللغات:2 / 76
  40. سنن الترمذي:5/47 (2680)، باب ما جاء في عالم المدينة.
  41. سنن الترمذي:5/ 47
  42. الجرح والتعديل لابن أبي حاتم:8/204
  43. الجرح والتعديل لابن أبي حاتم:8/205
  44. تهذيب الأسماء واللغات:2/77
  45. الثقات لابن حبان:7/459
  46. تهذيب الأسماء واللغات:2/76
  47. تذكرة الحفاظ للذهبي:1/157
  48. (بستان المحدثین)
  49. (شذرات الذہب)
  50. (تذکرۃ الحفاظ)
  51. (بستان المحدثین)
  52. (تذکرہ)
  53. ""Imaam Maalik ibn Anas" by Hassan Ahmad, 'Al Jumuah' Magazine Volume 11 – Issue 9"۔ Sunnahonline.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 اپریل 2010 
  54. Ibn Anas & 2008 2008, p. 3, 4, 10, 14, 16, 17, 27, 29, 32, 37, 38, 49, 51, 58, 61, 67, 68, 74, 78, 87, 92, 93, 108, 114, 124, 128, 138, 139, 151, 156, 161, 171, 196, 210, 239, 245, 253, 312, 349, 410, 412.
  55. N. Abbott, Studies In Arabic Literary Papyri: Qur'anic Commentary And Tradition, 1967, Volume II, University of Chicago Press: Chicago (USA), p. 114.
  56. "PERF No. 731: The Earliest Manuscript Of Malik's Muwatta' Dated To His Own Time"۔ www.islamic-awareness.org۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 جون 2022 
  57. Abdul-Ghani Ad-Daqr, Al-Imam Malik, Imam Dar al-Hijrah, pg. 285, 2nd ed. Damascus: Dar al-Qalam, 1998.
  58. ^ ا ب پ Gibril F. Haddad, The Four Imams and Their Schools (London: Muslim Academic Trust, 2007), p. 170
  59. Gibril F. Haddad, The Four Imams and Their Schools (London: Muslim Academic Trust, 2007), p. 167; narrated by Al-Dhahabī, Siyar, 7:415, cf. al-Bayhaqī, al-Asmā' wal-Sifāt, 2:304-305:866.
  60. Abdul-Ghani Ad-Daqr, Al-Imam Malik, pg. 292-293.
  61. Gibril F. Haddad, The Four Imams and Their Schools (London: Muslim Academic Trust, 2007), p. 176
  62. ^ ا ب Gibril F. Haddad, The Four Imams and Their Schools (London: Muslim Academic Trust, 2007), p. 179
  63. al-Qādī 'Iyād, Tartīb al-Madārik, 2:41, cited in Gibril F. Haddad, The Four Imams and Their Schools (London: Muslim Academic Trust, 2007), p. 179
  64. ^ ا ب پ Gibril F. Haddad, The Four Imams and Their Schools (London: Muslim Academic Trust, 2007), p. 180
  65. Narrated from Ibn Wahb by al-Khatīb in Tārīkh Baghdād, 7:336 and al-Suyūtī, Miftāh al-Janna, p. 162: 391, cited in Gibril F. Haddad, The Four Imams and Their Schools (London: Muslim Academic Trust, 2007), p. 175
  66. From Ma'n, cited in Gibril F. Haddad, The Four Imams and Their Schools (London: Muslim Academic Trust, 2007), pp. 162-164
  67. From Ma'n, cited in Gibril F. Haddad, The Four Imams and Their Schools (London: Muslim Academic Trust, 2007), pp. 162-163
  68. Gibril F. Haddad, The Four Imams and Their Schools (London: Muslim Academic Trust, 2007), p. 163
  69. Narrated from al-Wāqidī by Ibn Sa'd in the supplemental volume of his Tabaqāt (p. 440) and from al-Zubayr ibn Bakkār by Ibn 'Abd al-Barr in his al-Intiqā (p. 81). Cited in Gibril F. Haddad, The Four Imams and Their Schools (London: Muslim Academic Trust, 2007), p. 163
  70. ^ ا ب پ ت Ibn 'Abd al-Barr, al-Intiqā, pp. 74-75; cited in Gibril F. Haddad, The Four Imams and Their Schools (London: Muslim Academic Trust, 2007), p. 176
  71. From Ma'n, cited in Gibril F. Haddad, The Four Imams and Their Schools (London: Muslim Academic Trust, 2007), p. 170
  72. From Ma'n, cited in Gibril F. Haddad, The Four Imams and Their Schools (London: Muslim Academic Trust, 2007), p. 171
  73. ^ ا ب پ ت ٹ
  74. (جامع بیان العلم:2/149)
  75. The medieval Andalusian Muslim traveler and geographer Ibn Jubayr describes seeing a small dome erected above the tomb of Malik when he visited the cemetery in the later twelfth-century.
  76. Quran 30:4
  77. Yarshater 1985–2007, v. 39: p. 263.
  78. سنن أبي داود:2/258 (2193)، باب في الطلاق على غلط،سنن ابن ماجه:1/660 (2046)، باب طلاق المكره والناسي. امام البانی نے اس حدیث کوحسن قرار دیا ہے۔ (إرواء الغليل:7/113 (2047)
فقہی ائمہ کرام بلحاظ ترتیب زمانی ولادت
ترتیب نام امام مکتبہ فکر سال و جائے پیدائش سال و جائے وفات تبصرہ
1 ابو حنیفہ اہل سنت 80ھ ( 699ء ) کوفہ 150ھ ( 767ء ) بغداد فقہ حنفی
2 جعفر صادق اہل تشیع 83ھ ( 702ء ) مدینہ 148ھ ( 765ء ) مدینہ فقہ جعفریہ، کتب اربعہ
3 مالک بن انس اہل سنت 93ھ ( 712ء ) مدینہ 179ھ ( 795ء ) مدینہ فقہ مالکی، موطا امام مالک
4 محمد بن ادریس شافعی اہل سنت 150ھ ( 767ء ) غزہ 204ھ ( 819ء ) فسطاط فقہ شافعی، کتاب الام
5 احمد بن حنبل اہل سنت 164ھ ( 781ء ) مرو 241ھ ( 855ء ) بغداد فقہ حنبلی، مسند احمد بن حنبل
6 داود ظاہری اہل سنت 201ھ ( 817ء ) کوفہ 270ھ ( 883ء ) بغداد فقہ ظاہری،
  1. The Quran
  2. عظیم فقہ
  3. الموطا'
  4. صحیح بخاری
  5. صحیح مسلم
  6. جامع الترمذی
  7. مشکوۃ الانوار
  8. روشنی کے لئے مخصوص
  9. اسلام میں خواتین: ایک انڈونیشیائی جائزہ by Syafiq Hasyim. Page 67
  10. ulama, bewley.virtualave.net
  11. 1.ثبوت اور تاریخت - اسلامی دلائل. theislamicevidence.webs.com
  12. Atlas Al-sīrah Al-Nabawīyah. Darussalam, 2004. Pg 270
  13. Umar Ibn Abdul Aziz by Imam Abu Muhammad ibn Abdullah ibn Hakam died 829